ہمیں اپنے معاشرے پر آئے روز تجربات کرنے کی عادت ہو چلی ہے ۔ ہم آئے روز اپنی قوم کو تجربات کی بھٹی میں پھینک دیتے ہیں ۔ ہم یہ جانے بغیر کہ معاشرہ سازی کے بنیادی عناصر کیا ہیں ، چند ڈرامے ، فلمیں اور کتابیں پڑھ کر اپنے خیالات کے سانچے میں قوم کی تعمیر کا ” بلاک ” بناتے ہیں اور پھر پوری قوم کو اس میں فٹ کر کے خود کو تھپکیاں دیتے رہتے ہیں ۔ ہم شام کو کھانا کھانے کے بعد دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی محفل سجاتے ہیں اور اس عالم رنگ و بو کی بہتری کے لیے فریم سیٹ کرتے ہیں ۔ آج کل رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کا چرچا ہے ۔
رحمت اللعالمین رسول اللہ ﷺ کا لقب ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ہم نے پیغمبر کو اس لیے بھیجا کہ ہم تمام جہانوں پر اپنی رحمت کا سایہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اتھارٹی کا لفظ اپنے وجود میں جبر کا مزاج لیے ہوئے ہے ۔رحمت اللعالمین ﷺ کا نام سن کر دلوں میں ایک احترام اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ رحمت اللعالمین ﷺ کے ساتھ اتھارٹی کا لفظ اپنی ترکیب میں ہی ایک جبر اور بیگانگی کا احساس ہے ۔ اگر حکومت رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے بجائے اس کا نام رحمت اللعالمین ﷺ کونسل یا مرکز برائے تعلیمات رحمت اللعالمین ﷺ رکھ دے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 26اور27 اکتوبر کو دو روزہ اہم اجلاس طلب کیا ہے جس کے ایجنڈے میں پہلا آئٹم رحمت العلمین ﷺ اتھارٹی کے قیام سے متعلق تحسینی قرارداد کی منظوری ہے ۔ امید ہے کہ نظریاتی کونسل بھی اس سلسلے میں شاید اس پہلو پر غور کرے ۔
رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کے قیام کے مقاصد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتھارٹی میں شامل مذہب کے علماٗ سوشل میڈیا پر مذہب اور مقدس شخصیات سے متعلق توہین امیز مواد کا بھی فیصلہ کرے گی ۔ روئیت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین اور معروف عالم دین مفتی منیب الرحمان نے ایک بار کہا تھا کہ جب لوگ اسلام کو گالی نہیں دے سکتے تو پھر وہ مولوی کو گالی دیتے ہیں ۔ یعنی انہوں نے مولوی پر تنقید کو اسلام پر تنقید قرار دے دیا ۔ مفتی منیب الرحمان کے یہ الفاظ سوشل میڈیا پر رائٹ ونگ کے اکثر لوگ شئیر کرتے رہتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتھارٹی یہ فیصلہ کیسے کرے گی کہ مذہب کیا ہے اور تفہیم مذہب کیا ہے ؟ کیا کسی قدیم یا جدید مذہبی شخصیت کے قول ، فیصلے یا رائے پر تنقید مذہب پر تنقید کہلائی جائے گی ؟ اور کس اصول اور قاعدے کے تحت مقدس شخصیات کے تقدس کا فارمولہ طے کیا جائے گا ۔ پاکستان میں بسنے والے کئی مذہبی فرقے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کی مقدس شخصیات کو اس طرح مقدس نہیں مانتے جس طرح دوسرا فریق مانتا ہے ۔ مقدس ماننا تو دور ، ان کی تاریخی اور نصابی کتابوں میں ایک دوسرے کی مقدس شخصیات کے بارے میں بھی انتہائی نازیبا جملے موجود ہیں اور سوشل میڈیا سارا انہی حوالہ جات سے بھرا پڑا ہے ۔ یہی نہیں برصغیر پاک و ہند کے اہم ترین مذہبی شخصیات نے ایک دوسرے پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کے فتوے دیے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر پر مبنی لٹریچر ترتیب دیا ہوا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتھارٹی کس اصول اور ضابطے کے تحت توہین مذہب جیسے مقدمات کا فیصلہ کرے گی ۔ اگر یہ اتھارٹی یہ فیصلہ کرتی ہے تو کیا ان کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرے گی جن میں توہین امیز مواد موجود ہے اور وہ باقاعدگی کے ساتھ پاکستان میں شائع ہو رہی ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل جب پنجاب اسمبلی میں تحفظ اسلام بل پیش کیا گیا تھا تو مکتب تشیع کی جانب سے اس پر شدید احتجاج کیا گیا اور اسے اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا ۔ اسی طرح پنجاب میں اسمبلی سمیت پنجاب بھر کی سرکاری عمارتوں پر مذہبی شناختوں پر مبنی کلمات لکھوانے کا قانون بھی بنایا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہم ان اقدامات سے کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ کیا پارلیمانی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا فقط یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ شہریوں کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کو مذہب کے بڑے بینرز اور پردوں تلے چھپا دیں ۔
میرے خیال میں رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کا قیام پاکستان میں رائٹ ونگ طبقے کی ایک مؤثر اور بھرپور حمایت حاصل کرنے کا طریقہ ہے اور یہ مذہبی سیاسی حلقوں کی موجودہ وزیراعظم پر مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی تنقید کا اثر زائل کرنے کی ایک کوشش ہے ۔
اس طرح کے اقدامات سابق صدر اور فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں بھی ہوئے جب "نماز بالجبر ” اور ” رمضان بالجبر ” جیسے کام ہوئے ۔ چوہدری شجاعت حسین جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے ایک بار بتایا کہ اس دور میں وہ "لطیفے ” سامنے آئے الامان والحفیظ ، بقول چوہدری شجاعت حسین صاحب کے اکثر لوگ بغیر وضو کے نماز پڑھتے تھے اور کچھ کو نماز ہی نہیں آتی تھی اور وہ نماز پڑھا رہے ہوتے تھے ۔ اسی طرح سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں معاشرے کو ایک خاص طرز کا لبرل بنانے کی کوشش کی ۔ ان کا روشن خیال جدت پسندی کا پورا منصوبہ کسی کام نہ آیا . ہمارا معاشرہ مذہبی ہے تاہم ایک خاص حد سے زیادہ نہیں ۔ وہ مذہب کو قبول کرتا ہے لیکن ملائیت کو نہیں ، وہ مولوی ، مسجد اور مدرسے کو چندہ دے گا لیکن ووٹ نہیں ۔ اسے برقع پہنانے کی کوشش آپ کو برقع میں فرار کروا سکتی ہے ۔ آپ اگر اسے اس حد سے آگے لیکر جانے کی کوشش کریں گے تو آپ کا اپنا وجود تاریکیوں میں چلا جائے گا اور معاشرہ آپ کا ساتھ دینے کے بجائے آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا ۔
اسی طرح ہمارا معاشرہ ایک خاص حد تک لبرل اور سیکولر اقدار پر مبنی معاشرہ ہے ۔ اس معاشرے کو آپ یورپی معاشرہ بنانے کی کوشش کریں گے تو یہاں سے بھی رد عمل آئے گا ۔ لوگ انتہا پسندانہ نظریات کو اب قبول نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے اس ملک میں انتہا پسندانہ سوچ کی فصل کاشت ہوتے دیکھی اور اسے تناآور درخت بنتے بھی دیکھے ۔ انہوں نے ہاتھوں سے رسیوں کی گانٹھیں لگائیں اور پھر دانتوں سے کھولیں ۔
پاکستان میں سیاسی مفادات کے لیے مذہب کے استعمال کی پوری ایک تاریخ ہے ۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ ، قادیانیت کے خلاف تحریک ، اہل تشیع کے خلاف تحریک ، اہل تشیع کے کچھ طبقات کی پاکستان میں شیعہ انقلاب کی تحریک ، تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ سمیت اکثر مذہبی تحریکوں کی جڑیں ریاستی پالیسی میں پیوست ہیں ۔ بظاہر سیکولر اور لبرل دکھائی دینے والی عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی موقع کی مناسبت سے مذہب کا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں نے اپنے انتخابی نشان کتاب کو قرآن قرار دیکر لوگوں کے جذبات سے کھیلا اور جب وہ اپنا اعلان کردہ اسلامی نظام قائم نہ کر سکے تو حسبہ بل لایا گیا ۔ وزیر اعظم کی جانب سے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کا قیام بھی ظاہری طور پر ایک سیاسی حکمت عملی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ، وزیر اعظم کے اس اقدام سے مذہبی طبقے کی جانب سے ان پر مذہبی بنیادوں پر تنقید کی کمر ٹوٹے گی اور مہنگائی کی جانب سے بھی لوگوں کی توجہ شاید بٹ جائے تاہم میرے نزدیک اس "اتھارٹی ” کا انجام بھی حسبہ بل سے زیادہ نظر نہیں آتا ۔