ساٹھ کی دہائی تک ہم ایک انتہائی سنجیدہ قوم کے طور پر دنیا میں جانے جاتےتھےاور آج ترقی کی منازل میں ہم سے بہت آگے پہنچنے والی قومیں ہمارے ماڈلز کو رول ماڈل کے طور پر لیتیں تھیں، پھر آہستہ آہستہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کی گیم کاآغاز ہوا،پہلے معاشرے میں عدم میرٹ نے جگہ بنائی،انصاف کو عظیم ترقومی مفاد کے چکر میں پیچھےچھوڑدیاگیا،بدعنوانی عام ہوئی تو پھرسونے پر سہاگہ ہمیں مذہبی، لسانی،علاقائی اور ناجانے کن کن بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کردیا گیا اور اب سوشل میڈیا کے اس دور میں تو اللہ کی پناہ جو کچھ ہم سن دیکھ رہے ہیں، اخبارات کے دور کے بعد جب نیا نیا سوشل میڈیا آیا تو اس کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں پر بھی بات ہوئی جس میں سب سے بڑی یہ ہے کہ آپ کے خیالات اور الفاظ کی تصحیح کوئی نہیں کرتا،کوئی ایڈیٹر نام کی چیز آپکے راستے میں حائل نہیں ہوتی بلکہ ڈان کےحمید ہارون صاحب نے بڑے بھلے وقتوں میں سوشل میڈیا کو ایک "گٹر”سے تشبیہ دی تھی، یہاں لوگ وائرل کے چکر میں وہی باتیں کرتے دیکھائی دیتے ہیں جو متنازعہ ہوں،لوگوں کے دلوں کو لگیں، چاہے اقدار و روایات اور سماجی اخلاقیات تباہ و برباد ہوتی رہیں۔ایک اور بہت بڑی بات ایک دوسرے کو دیکھو دیکھی کوئی بات شروع ہوتی ہے تو پھر ایک ٹرینڈ بن جاتی ہے،میرے جیسے کم سبسکرائبر والے جتنی بھی اچھی بات کریں پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ میری بات کو لیکر جب ملین سبسکرائبر والا بات کرتا ہے تواس عوام کواس موضوع کاآغاز کرنے والا بھول جاتا ہےاور بات کہاں سے کہاں پہنجتی ہےتوکسی کو علم ہی نہیں ہوپاتا۔سموسے کے نقصانات پر بات کا آغاز آج سے کئی مہینے پہلےزرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد احمد بسرا نے کیا تھا، احباب گوگل سرچ پر جاکر انکا وی لاگ دیکھ سکتے ہیں جس میں انہوں نے ایک گاجر پکڑ کر بتایا تھا کہ اسکے کیا فوائد ہیں اور انکے برابر دوسرے شخص کے ہاتھ میں سموسہ پکڑ ا تھا،ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سموسے کی تین چارسو کیلوریز کو ہضم کرنے کیلئے آپ کوتیس منٹ یا اس زائد اچھا خاصا چلنا پڑےگا، اور پھر بھی ٹرانس فیٹ آپکوا نقصان دے گی ،جبکہ گاجر تھوڑی بہت حرکت سے ہی آپکو ہضم ہوگی اور صحتمند رکھےگی۔اب بات کرتے ہیں ،برادر شیراز درانی کی تحریر کی شیراز ملتان میں پاکستان ٹیلیویژن نیوز کے ہیڈ(بیوروچیف)ہیں انہوں نے فیس بک پر سموسوں کی بحث پر ایک حقیقت پسندانہ تحریر لکھ کر آج کل سوشل میڈیا کی زینت ڈاکٹر عفان قیصر کو ٹیگ کیا تو جناب نے ڈی ڈیگ کردیا،
آئیے اب شیراز بھائی کی تحریر پڑھتے اور اس پر بات کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ "سوشل میڈیا پر ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر عفان قیصر (ماہر امراض جگر) اور ہمارے شہر کی شان عزیز اللہ خان صاحب(سابق پولیس آفیسر) کے حفظان صحت بارے وی لاگز کا بہت چرچا ہےدونوں قابل احترم شخصیات اپنے بیان میں سموسے کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔