اماوس کی رات اور امکان کے جگنو

ناانصافی ہماری دھرتی کے سینے پر رکھا ایسا پتھر ہے جس کا بوجھ ہمارے رگ و ریشے، ہر بن مو میں ایک جیسی تکلیف دیتا ہے۔ ہماری زمین کا امتیاز یہ ہے کہ ہمارے پُرکھوں نے نسل در نسل ناانصافی سے جنگ کی ہے۔ ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ پاکستان کے ہر خطے میں، تاریخ کے ہر موڑ پر، قلم کی کاٹ سے پھانسی کے رسے تک بہادری کی داستانیں لکھی ہیں۔ عبداللہ بھٹی سے خوشحال خان خٹک تک، بھگت سنگھ سے شیخ ایاز تک، گل خان نصیر سے غنی خان تک، حبیب جالب سے قلندر مومند تک، فیض سے فراز تک، منٹو سے فہمیدہ ریاض تک، سوبھو گیان چندانی سے عذرا عباس تک، اجمل خٹک سے زاہدہ حنا تک، ہماری زمین کلراٹھی سہی لیکن ہمارے پھولوں کی بہار بھی تو دیکھئے۔ اما وس کی رات میں چاند نہیں نکلتا لیکن ہمارے تاروں کی دمک کی داد تو دیجئے!

انصاف، امن اور محبت کا خواب بہت بڑا ہے۔ اس خواب کا نشان یہ پیمان، حلف اور یہ وعدہ ہے کہ ہم ناانصافی کے سامنے ہار نہیں مانیں گے۔ یہ خواب نسلِ انسانی کی اعلیٰ ترین میراث ہے۔ اتنے بڑے خواب کے سامنے ایک فرد کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ زندگی کی مہلت بھی کم ہوتی ہے۔ اس خواب کی تعبیر کسی موعودہ یا بخشندہ مسیحا کے بس میں نہیں، انسانوں کی سانجھ میں رکھی ہے۔ وہ ڈاکٹر جو کسی بیماری کے علاج کی تلاش میں جان کی بازی ہار گیا، وہ مصور جو رنگ اور لکیر کے جنون میں بھوک پیاس تک بھول گیا، وہ سیاسی کارکن جس نے جوانی کی راتیں جیل کی کوٹھری میں ماتحت اہل کاروں کی بدزبانی سہتے گزار دیں، وہ موسیقار جو سارنگی پر بھیروں کی سرگم چھیڑنے کی دھن میں صبح کاذب کی نیند سے لڑتا رہا، وہ پولیس اہل کار جو دوسروں کی حفاظت کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا، انسانی حقوق کا وہ کارکن جس نے ایک بےگناہ کا دفاع کرتے ہوئے موت کو گلے لگایا، وہ لکھنے والا جو بسترِ مرگ پر اپنے مسودے کی نوک پلک سنوارتا رہا، یہ سب ایک ہی قافلے کے مسافر ہیں۔

امن کی وادیوں کی جستجو کرنے والے، آسودگی کی راہیں تراشنے والے اور سنگلاخ پتھروں میں چھپی خوبصورتی کو آشکار کرنے والے۔ اپنا سرمایہ یہی ہات تو ہیں… میکسم گورکی نے کیا اچھی بات لکھی… دنیا میں جو بھی اچھا ہے وہ انسانی دماغ کی تخلیق ہے یا انسانی ہاتھوں کی پیداوار… انسان کی بلند ترین کامیابی یہی ہے کہ اپنے عہد کا اور اپنے لوگوں کا قرض ادا کرتا رہے۔ اور وقت آنے پر یہ مشعل اگلی نسل کو سونپ دے۔ سب سے بڑی نظم وہ نہیں جو لکھی جا چکی، جو نظم آنے والے شاعر کو لکھنا ہے، وہ اس سے بھی بڑی ہو گی۔ سب سے اچھا سیاسی نظام وہ نہیں، جس میں زندگی بسر کرنے کی ہمیں سزا ملی۔ سیاسی مکالمے کا دریا اگلی منزلوں سے گزرے گا تو اس سے بہتر بندوبست کی صورتیں نمودار ہوں گی۔ ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا… ہم نے گزشتہ نشست میں امکان ہی کا وعدہ کیا تھا۔ آئیے، اپنے امکان کی خبر لیں۔

دنیا میں اوسط عمر اس وقت قریب 30برس ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے بائیس برس ہے۔ ہم آج کی تقویم میں انسانیت سے آٹھ برس چھوٹے ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے حقیقی قدرتی وسائل ہیں، بلوچستان کی پہاڑیوں میں چھپا تانبا اور تھر کے صحرائی ٹیلوں میں دفن کوئلہ نہیں۔ تلہ گنگ کا تیل اور چنیوٹ کا فولاد نہیں، جس کی شیشی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دی اور لوہے کی لاٹھ نواز شریف کو تھما دی۔ یہ بچے ہماری ماؤں کی کمائی ہیں۔ اگر ہم نے اس کھیت میں ٹھیک بیج بو دیا تو غضب کی فصل اٹھے گی۔ آپ نے تعلیم کے لئے رکھے کل قومی پیداوار کے 2.4فیصد کو 1.7فیصد میں بدل دیا۔ آپ نے ظلم کیا۔ ڈھائی کروڑ بچہ اسکول جانے کی عمر میں ہے اور اسکول کے دروازے سے محروم ہے۔ یہ بچے پاکستان کا بوجھ بھی ہو سکتے ہیں اور ہمارا اثاثہ بھی۔ فیصلہ آپ کر لیجئے۔

سنا ہے کہ ہمارے وزیراعظم ذرائع ابلاغ کو پسند نہیں کرتے۔ 1996سے 2013ءتک محترم عمران خان کا کل سیاسی اثاثہ 2002میں قومی اسمبلی کی ایک نشست تھی بمد مدارات۔ عمران خان نے کسی قانون سازی میں حصہ نہیں ڈالا، کسی پالیسی پر رائے نہیں دی۔ عمراں خان کے 300خصوصی انٹرویو نجی ٹیلی وژن اسکرین پر دکھائے گئے۔ سیلاب امدادی مہم عمران خان کے نام ہوئی۔ یہ کس کا اعجاز تھا؟ ہم چپ ہیں اور ہم جانتے ہیں۔ عمران خان کو اس میڈیا کی آزادی کھلتی ہے جو پاکستان کی جمہوری روایت سے کندھا ملا کے چلا ہے۔ ہمارے میڈیا کے شہید شمار کرو۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ، پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار۔ دو تازہ کتبے بھی پڑھ لیجئے۔ ہیرالڈ اور نیوز لائن۔ محمد علی جناح کی تصویر چھپتی ہے ڈان کی پیشانی پر۔ آپ الزام کی باڑھ باندھتے ہیں۔ 77برس کی تاریخ ہے روز نامہ جنگ کی۔ اس مکتب سے پڑھنے والوں نے اس ملک کے لوگوں کے لئے لکھنا سیکھا ہے۔ آزاد صحافت کی روایت پاکستان کا سرمایہ ہے۔ پاکستان کے صحافی نے 2007اور 2012میں بیرونِ ملک ملازمت نہیں مانگی۔ صحافی کے بچے بھوکے ہیں اور بیوی کی ایڑیاں پھٹ گئی ہیں۔ صحافی اپنی ماں کو سمجھا نہیں پاتا کہ اس کی تنخواہ ان نابغوں کے برابر کیوں نہیں جو پچیس برس بعد قومی مفاد کی چھتری باندھ کر میدان میں اترے اور زبان، بیان، دلیل اور روایت کی کٹیا دریا برد کر دی۔

آخری بات یہ کہ ہماری مائیں تب ہمارا آسرا تھیں جب ہم نے گردن گھما کے دنیا دیکھنا سیکھی تھی۔ ہم نے اپنی ماں کے نمکین آنسو سے سیاست سیکھی ہے۔ میری نسل ذوالفقار علی بھٹو کی مقروض ہے۔ مفت تعلیم پر ضیاء الحق نے 1980میں چونا پھیر دیا۔ منظور پشتین، مریم نواز، بلاول بھٹو، خوشحال خٹک، عمار علی جان اور تیمور الرحمٰن اس ملک کی سیاست کو ہماری ماؤں کی آنکھ سے جوڑ لیں گے تو اس ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوگا۔ آسکر وائلڈ کی کہانی کا رحم دل شہزادہ بیدار ہوگا۔ ہنرک ابسن کی گڑیا کا گھر مسمار نہیں ہوگا۔ میکسم گورکی کے پاویل کی ماں ہمارے ماتھے پر بوسہ دے گی ۔ ہمیں رنگوں کے جگنو ، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے