ایک دفعہ کا ذکر ہے!

لاہور کا ایم اے او کالج کبھی امرتسر میں ہوتا تھا جس سے فیض، ڈاکٹر تاثیر اور دوسرے کئی بڑے نام منسلک تھے۔ کالج کا ایک اسکول ایم اے او ہائی اسکول بھی تھا جس میں سعادت حسن منٹو آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا اور دسویں جماعت میں اُردو کے پرچے میں فیل ہو گیا تھا۔ اس کالج سے میری دو نسلوں کا تعلق ہے۔ میرے ابا جی مولانا بہاء الحق قاسمیؒ ایم اے او کالج امرتسر اور ایم اے او ہائی اسکول امرتسر سے 27برس تک منسلک رہے۔ میں نے ایف اے اور بی اے، ایم اے او کالج لاہور سے کیا اور اورینٹیل کالج سے ایم اے کرنے کے بعد 25سال تک بطور استاد یہیں خدمات انجام دیں۔ یوں اس تعلیمی ادارے کے ساتھ میرا تعلق 56سال پرانا رہا۔ میں آج بھی ادھر سے گزرتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے قیمتی ماہ و سال کا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔

ایم اے او کالج میں نمایاں حیثیت کے حامل میرے کولیگز امجد اسلام امجد اور پروفیسر طفیل دارا شامل تھے۔ امجد اور میرا کمرہ ایک ہی تھا جبکہ پروفیسر طفیل دارا برابر والے کمرے کے مکیں تھے۔ دارا صاحب ایم اے او کالج میں فرسٹ ایئر سے فورتھ ایئر تک میرے استاد رہے تھے۔ بعد میں اسی کالج میں بطور لیکچرار میری تعیناتی ہوئی تو وہ صدر شعبہ تھے۔ دارا صاحب کو باڈی بلڈنگ اور شاعری کا بیک وقت شوق تھا چنانچہ انہوں نے اپنے کمرے کی ایک دیوار پر مسٹر یونیورس اور دوسری دیوار پر غالب کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ ایک دن موڈ میں تھے چنانچہ غالب کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اوئے غالبا نہ ہوئے تم میرے زمانے میں تمہارے پنجے میں پنجہ پڑتا تو تمہیں پتا چلتا کہ شاعری کیا ہوتی ہے؟ میں قریب ہی بیٹھا تھا میں نے کہا ’’دارا صاحب آپ ایک شریف آدمی کو چیلنج کر رہے ہیں اگر پنجے میں پنجہ ڈالنے ہی کی بات ہے تو یہ بات اپنے سامنے لٹکائے ہوئے مسٹر یونیورس سے کریں، دارا صاحب کا کمرہ چھوٹا سا تھا چنانچہ میری دھواں دھار سگریٹ نوشی سے وہ دھویں سے بھر جاتا۔ ایک دن شدید غصے کے عالم میں فرمانے لگے پروفیسر صاحب! آپ نے جب سگریٹ پینا ہو، مجھے بتا دیا کریں میں کمرہ چھوڑ کر باہر چلا جایا کروں گا۔ ان کے لہجے سے کمرے میں سناٹا چھا گیا میں نے چند لمحوں کے بعد جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور دارا صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ’’سر ذرا زحمت کریں‘‘ یہ دارا صاحب کی شفقت تھی کہ وہ میری یہ شوخیاں برداشت کرتے تھے۔ بس ایک دن آپے سے باہر ہو گئے۔ میں کالج میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ دارا صاحب کے ہاتھ اور سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں اور لوگ ان کی عیادت کر رہے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا، سر خیریت ہے آپ مشاعرہ پڑھ کر تو نہیں آ رہے‘‘ اس پر انہوں نے مشتعل ہو کر پاس دھری اینٹ اٹھا لی، میں وہاں سے بھاگ گیا لیکن اینٹ نے میرا پیچھا کیا۔ شکر ہے دارا صاحب کا نشانہ خطا ہو گیا تھا۔ ایم اے او کالج چونکہ عین چوک میں واقع تھا چنانچہ وہاں جب کبھی کوئی ہنگامہ ہوتا لڑکے چوک میں جمع ہو جاتے تھے اور یوں ادھر سے گزرنے والے لوگ یہ سمجھتے کہ یہ کالج ٹھیک نہیں ہے حالانکہ یہ بھی دوسرے کالجوں جیسا ہی تھا مگر عین چوک میں ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے کالج خاصا بدنام ہوتا تھا۔ اسی پسِ منظر میں اعجاز حسین بٹالوی مرحوم نے ایک طالب علم کے داخلے کی سفارش کے حوالے سے مجھے ایک خط لکھا جو کچھ یوں تھا ’’برادرم قاسمی صاحب حامل رقعہ ہذا کا خیال ہے کہ انسان کو علم ضرور حاصل کرنا چاہئے خواہ اس کے لئے ایم اے او کالج میں ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔

یہ حکایت بہت لذیز اور طویل ہے۔ ایم اے او کالج میری پہلی تعلیمی محبت ہے اور اس کے ساتھ میرا قلبی تعلق زمان و مکان کا محتاج نہیں۔ سو اس حوالے سے آخر میں صرف ایک بات اور وہ یہ کہ مجھے اپنے تمام کیریئر کے دوران یہ پتا نہ چلا کہ سنیارٹی کیا ہوتی ہے، انکریمنٹ کب لگتا ہے۔ مجھے تنخواہ کتنی ملتی ہے اور اس میں سے کتنی کونسی مد میں کٹتی ہے اور یوں اساتذہ کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے لئے میں دعا گو تو رہا لیکن فعال کبھی نہ ہو سکا۔ آپ کو اپنی زندگی کا ایک عبرتناک واقعہ سنا دوں۔ ایک دن میں ٹی ہائوس میں بیٹھا تھا۔ اس وقت میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اس دوران ایک بس باہر آ کر رکی۔ اس میں سے ایک صاحب باہر نکلے اور کہا جلال پور جٹاں مشاعرہ ہے۔ اس میں محدود نشستیں باقی رہ گئی ہیں۔ چنانچہ آپ میں سے تین چار شاعر جلال پور جٹاں کے اس عظیم الشان مشاعرے میں شرکت کے لئے آ سکتے ہیں۔ جس پر میں، نذیر قیصر اور سرور کیفی مرحوم اچھل کر بس میں جا بیٹھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہاں آپ کے قیام و طعام کا نہایت معقول انتظام کیا گیا ہے۔ چنانچہ بس لاہور سے روانہ ہو کر جب جلال پور جٹاں کی اس عمارت کے باہر رکی جہاں ہم ’’شعرائے کرام‘‘ کے قیام و طعام کا معقول بندوبست کیا گیا تھا، اس کے باہر جلی حروف میں لکھا تھا ’’یتیم خانہ جلال پور جٹاں۔ یتیم و مسکین بچوں کے قیام اور طعام کا معقول بندوبست ہے‘‘۔

جہاں تک مشاعرے کا تعلق ہے اس کا اہتمام پرائمری اسکول کے احاطہ میں کیا گیا تھا اور سامعین کرام میں کچی سے پکی اور پکی سے پانچویں جماعت تک کے بچے ہمیں سننے کے لئے ہمہ تن گوش اکڑوں بیٹھے تھے۔ انہیں اس طرح بیٹھے دیکھ کر ڈر ہی لگا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے کہ یہاں تو ان کے ڈائپر بدلنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ جب میری باری آئی اور میں اپنا کلام بلاغت نظام شروع کرنے ہی کو تھا کہ ایک بزرگ جو ہر شاعر کی آمد پر پہلے نعرے لگواتے اور پھر اس کے گلے میں ہار ڈال کر اسے کلام سنانے کا اشارہ کرتے، وہ میری طرف بڑھے اور نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور نعرئہ حیدری کے بعد میرے گلے میں ہار ڈالے اور کہا چلو شاعر صاحب شروع ہو جائو۔ میں اس صورتحال سے اس قدر کنفیوز ہوا کہ میں نے ترنم میں پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد راوی خاموش ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے