’سیاسی اسلام‘ کا تنقیدی مطالعہ

مذہب و سیاست کی بحث جب علم کے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو یہ چند سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ جیسے

1۔ اسلام کی اس تعبیر کا ظہور کب ہوا کہ یہ اصلاً ایک ریاست ہے اور اس کا سیاسی غلبہ یا اسلامی ریاست کا قیام، ایک مسلمان کا مطلوب و مقصد ہے؟ 2۔اس مقدمے کا دینی استدلال کیا ہے؟ 3۔ سنی اور شیعہ روایت میں، اس تعبیر کے اہم ترین نمائندے کون ہیں؟ 4۔ مذہب کی سیاسی تعبیر کے بارے میں ہماری علمی روایت کا عمومی رجحان کیا ہے؟ 5۔ جماعت اسلامی، الاخوان المسلمون، القاعدہ، داعش اور ایران کی انقلابی قیادت، کیا ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں اور ایک ہی تعبیر کے متنوع مظاہر ہیں؟

گزشتہ نصف صدی میں اسلام کی یہ تعبیر جس بڑے پیمانے پر تحقیق و تنقید کا موضوع بنی ہے، شاید ہی کوئی موضوع بنا ہو۔ اس پر اب تک اتنی کتابیں لکھی جا چکیں کہ ان کا احاطہ، کسی فردِ واحد کا نہیں، ایک ادارے کا کام ہے۔ ان کتب میں وہ سب سوال زیرِ بحث آئے ہیں جن میں سے بعض کا اس کالم میں ذکر کیا گیا ہے؛ تاہم اردو کا دامن بڑی حد تک ایسے علمی مظاہر سے خالی ہے۔ اردو میں مولانا وحیدالدین خان کی ‘تعبیر کی غلطی‘ اگرچہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کی نظیر کسی دوسری زبان میں موجود نہیں مگر یہ استثنا ہے۔

دو ماہ پہلے، اس موضوع پر نوجوان سکالر شمس الدین حسن شگری کی کتاب ‘مذہبی انتہا پسندی… اسلامی انقلاب و حکومت اور جوابی بیانیہ‘ شائع ہوئی ہے۔ 408 صفحات پر مشتمل یہ کتاب، بڑی حدتک اس کمی کی تلافی کردیتی ہے۔ اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق اتنا مواد جمع کر دیا گیا ہے کہ میں نے کسی اور اردو کتاب میں یکجا نہیں دیکھا۔ اس کتاب میں ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تعبیر قرآن مجید کی کن آیات اور احادیث سے اخذ کی گئی ہے، دوسری طرف یہ واضح کیا ہے کہ امت کی علمی روایت میں دیگر اہلِ علم نے ان آیات کو کیسے سمجھا ہے اور وہ سیاسی تعبیر سے کس طرح مختلف ہیں۔ یہ کام مولانا وحیدالدین خان نے بھی کیا ہے؛ تاہم دونوں میں ایک فرق ہے۔ مولانا نے بحث کو مولانا مودودی کی کتاب ‘قرآن مجید کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ کی تنقید تک محدود رکھا ہے اور الہ، عبادت، رب اور دین کے بارے میں مولانا مودودی کی تعبیر کی غلطی واضح کی ہے۔

شمس الدین صاحب نے غلبہ دین کے عمومی دینی استدلال کو موضوع بنایا ہے اور بحث کو علتِ جہاد اور خروج جیسے موضوعات تک پھیلا دیا ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے ان موضوعات پر جدید مفکرین اور علما کے خیالات کو بھی جمع کر دیا ہے جو جوابی بیانیہ کے طور پر سامنے آئے۔ پھر یہ کہ مولانا وحیدالدین کی کتاب 1965ء میں شائع ہوئی جب ‘سیاسی اسلام‘ بڑی حد تک، محض ایک فکری بحث کا عنوان تھا۔ آج تو یہ ہمارا تجربہ ہے۔ اب تو یہ مسلم معاشروں پر بیت چکا ہے۔ شگری صاحب نے ان تجربات اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والے لٹریچر کو بھی اپنی کتاب میں سمو دیا ہے۔

اس کتاب کا سب سے امتیازی پہلو، شیعہ فکر کا مطالعہ ہے۔ ایران کے انقلاب کے بعد، شیعہ علما کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جو شیعہ روایت کے اندر ‘سیاسی اسلام‘ کا استدلال پیش کر رہی ہے۔ سنی اور شیعہ روایت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک کے ہاں یہ بحث تصورِ خلافت اور دوسرے کے ہاں تصورِ امامت کے گرد گھومتی ہے۔ اس باب میں خمینی صاحب کے تصور ولایتِ فقہیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ میرے علم میں اردو کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس موضوع پر شیعہ لٹریچر کا اس تفصیل سے محاکمہ کیا گیا ہو۔ انگریزی میں بہت سے لوگوں نے کام کیا ہے جن میں مجھے حمید عنایت، عبدالعزیزسچیدینا، سعید ارجمند اور نکی کیڈی کا کام وقیع معلوم ہوتا ہے۔ اردوکا دامن البتہ تہی رہا۔ شگری صاحب نے تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ شیعہ روایت میں ‘سیاسی اسلام‘ کا مقدمہ کیسے آگے بڑھا اور اس کا دینی استدلال کیا ہے۔

اس کتاب پر جتنی محنت تحقیق کے باب میں ہوئی ہے، اگر اتنی ہی توجہ تسوید اور حسنِ ترتیب کے میدان میں بھی کی جاتی تو اس کتاب کی افادیت بہت بڑھ جاتی۔ پاکستان میں ابھی تک اشاعتی ادارے فنی تقاضوں کو نبھا نہیں پائے۔ کتاب کی ایڈیٹنگ اشاعت کا ایک اہم مرحلہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ سرے سے کوئی مرحلہ ہی نہیں۔ اس کا اندازہ اس کتاب کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے۔

شگری صاحب کی کتاب میں معلومات اس طرح پھیلتی چلی جاتی ہیں کہ ایک مرحلے پر ارتکاز ختم ہونے لگتا ہے۔ اگر انہیں ایک اچھا ایڈیٹر مل جاتا تو اس کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا اور ساتھ ہی یہ اس مو ضوع کے حوالے سے موجود پراگندگی کو بھی کم کرنے میں کہیں زیادہ مفید ثابت ہو سکتی۔ مصنف کی اردو اور عربی کی کتب تک رسائی بھی قابلِ رشک ہے مگر اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزی کتب سے کم فائدہ اٹھایا گیا ہے۔

یہ کتاب ایک نوجوان سکالر کی ایک متاثر کن کاوش ہے اور اس کا علمی حلقوں میں خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اس کتاب کو ‘عکس پبلیکیشنز‘ لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس ادارے کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصے میں اچھی کتابیں سامنے آئی ہیں۔

اسی موضوع پر گزشتہ ماہ میری کتاب ”سیاسی اسلام… تصور ارتقا، مستقبل‘‘ بھی شائع ہوئی ہے۔ میں نے اس کتاب میں ‘سیاسی اسلام‘ کی علمی تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے، اس تعبیر کے دینی و تاریخی استدلال کو بیان کیا ہے۔ ایک باب میں اُس تنقید کا خلاصہ ہے جو روایتی دینی حلقے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا وحیدالدین خان اور جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ میں نے اس ارتقا کو بھی بیان کیا ہے جو مولانا مودودی سے ڈاکٹر اسرار احمد، خرام مراد اور پروفیسر خورشید احمد صاحب تک پھیلا ہوا ہے۔

کیا القاعدہ اور داعش، ‘سیاسی اسلام‘ ہی کے مظاہر ہیں؟ یہ سوال بھی اس کتاب میں زیرِ بحث ہے۔ اس کے ساتھ ان فکری مسائل کو بھی سامنے لایا گیا ہے جو میرے خیال میں اس تعبیر کو درپیش ہیں۔ میں نے اس نظامِ فکر کے خدوخال بھی واضح کیے ہیں، جو میری دانست میں موجودہ مسلم معاشرے کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب ‘اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد نے شائع کی ہے۔

علم کی دنیا میں تنقیدکا مقصد کسی کو کم تر ثابت کرنا نہیں، فکری ارتقا کو مہمیز دینا ہے۔ تنقید میں بھی غلطی کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا بنیادی مقدمے میں۔ شمس الدین حسن شگری روایتی دینی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں؛ تاہم انہوں نے اپنے فکری ارتقا کو رکنے نہیں دیا۔ ان کی کتاب اس بات کی دلیل ہے کہ مدرسے کی روایت میں کیسی تنقیدی نظر رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ انہیں کسی خاص مسلک کا نمائندہ بنانے کے بجائے، اگر ان کے تنقیدی شعور کی آبیاری کی جائے تو یہ رویہ خود مدرسے اور روایت کی زندگی کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

‘سیاسی اسلام‘ کے تصور کا علمی اور ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہو کر مطالعہ، آج مسلم معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ مناظرانہ اسلوب کا غلبہ ہے، اس لیے تنقید اور مناظرے کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاتا۔ اگر تنقید کرنے والا اور جس پر تنقید کی جائے، دونوں اس کا اہتمام کر سکیں تو ہماری علمی روایت معاشرتی ارتقا کی ضمانت بن سکتی ہے۔

میرا تاثر ہے کہ سیاسی اسلام کے مؤیدین کے ہاں ردِ عمل کا غلبہ رہا ہے۔ انہوں نے تنقید کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی یہ مستحق تھی اور اسے ایک نفسیاتی مسئلہ بنا لیا۔ اس کا اندازہ، اس خط و کتابت سے بھی کیا جا سکتا ہے جو مولانا وحیدالدین خان اور بشمول مولانا مودودی، جماعت اسلامی کے دیگر اکابرین کے مابین ہوئی اور ‘تعبیر کے غلطی‘ کی ابتدا میں شامل ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ ان کتابوں کو اس فکر کا ایک علمی مطالعہ سمجھ کر پڑھا جائے۔ میں اپنی حد تک تو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس فکر کی نمائندہ شخصیات کی، میرے دل میں وہی عزت ہے جو اپنی علمی روایت کی دیگر شخصیات کی ہے۔ شگری صاحب کے بارے میں بھی میرا یہی حسنِ ظن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے