وزیر اعلی پنجاب کرونا چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عملی میدان میں

وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اقتدار کے قریب دو سال مکمل ہونے کے باوجود جہاں بہت سارے محاذ سر کر چکے ہیں وہاں پر کو سلمان کی روایتی سادگی بہر حال ان میں موجود ہے۔ان کی قابلیت کا سرٹیفیکیٹ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ مخالفتوں کے سارے طوفان تھم چکے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان جو کارکردگی کےحوالے سے کسی کو معاف نہیں کرتے اور بھری مجلسوں میں بھی تبصرہ کرنے سے باز نہیں آتے۔سردار عثمان بزدار تک ابھی تک ان کے کسی تبصرے کی کاٹ نہیں پہنچی۔اور ہر میٹنگ میں وہ ان کی تحسین کرتے ہیں۔

کوہ سلمان کے روایتی سردار جو اب اپنے قبیلے کے بھی سربراہ ہیں، سے ابراہیم حسن مراد اور میں جب پہلی دفعہ ملے تھے تو دیگر باتوں کے علاوہ ایک تاثر یہ بھی تھا کہ بے شک ان میں بہت صلاحیتیں موجود ہیں.اور کچھ کر گزرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں ۔لیکن ان کا خاص وصف ان کی سادگی ہے ۔ اور وہ پورے صبر و تحمل سے سنتے ہیں۔اپنی کم سناتے ہیں۔

جبکہ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا چاہے وہ آج ہوں یا کل کے۔بقول غالب ایک ہی حال ہے۔

بات پر واں زبان کٹتی ہے۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

وہ چاہتے ہیں کہ وہ ہی بولتے رہیں اور سامنے والا سنتا رہے۔

برصغیر کا المیہ یہ ہے کہ ہم جانے والوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔زندوں کی بجائے مردوں کی باتیں زیادہ کرتے ہیں۔شخصیات کے اسیر ہیں۔لیکن آنے والے ایک وقت میں سب کہیں گے کہ عثمان بزدار نے واقعی ڈیلور کیا ہے۔

اس وقت کا اہم ترین موضوع کرونا ہے۔ایک وقت تھا کہ اگر یہاں کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو امیر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ یہاں سے بھاگ کر امریکہ یا پورپ چلے جائیں گے۔لیکن اس وباء نے دنیا کو عملی طور پر گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔ایک سرے سے دوسرے سرے تک وباء نے اپنے خونی پنجے بلا تفریق یورپ ، ایشیا و امریکہ گاڑے ہوئے ہیں۔کرونا وائرس کی ابتداء ہمارے پڑوسی ملک چین کے شہر ووہان سے ہوئی۔اور یہ وہاں سے آنے والا پہلا وائرس نہیں اس سے قبل ایک وائرس سارس بھی دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کر چکا ہے۔ماضی بعید کی بات کریں تو 1964 ء میں پھیلنے والی طاعون کی وباء کے نتیجے میں کچھ چینی علاقوں کی 20 سے 40 فیصد آبادی ختم ہو گئی تھی۔اور اس دور میں چین کو وباء کے ساتھ ساتھ خشک سالی کا بھی مسئلہ تھا۔اس دور میں چین میں منگ خاندان برسراقتدار تھا۔یہ صورت حال اس قدر تباہ کن تھی کے ہر چیز تہ و بالا ہو کر رہ گئی اور حالات قابو سے باہر ہو گئے۔نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ طویل عرصہ سے حمکران جنگ خاندان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ کرونا کو سمجھنے میں ہم نے خاصی تاخیر کی اور غریبوں کی صورت حال کے پیش نظر مکمل لاک ڈاون کا فیصلہ تاخیر سے کیا گیا۔
وزیر اعلی’ پنجاب نے اس وباء کے بالکل آغاز میں ہی اس کے تدارک کا آغاز شروع کر دیا۔فوری طور پر کابینہ کا اجلاس بلایا اور کابینہ کی ایک کمیٹی قائم کر دی تاکہ اس کے اجلاس آسانی سے منعقد ہو سکیں۔اور یہ کمیٹی فوری طور پر فیصلے بھی لے سکے۔اور کسی قسم کی بھی تاخیر نہ ہو۔

اسی طرح وزیر اعلی’ نے صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا تاکہ تمام اداروں کو ایک پیج پر لایا جا سکے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ اس صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکے۔چنانچہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کور کمانڈر لاہور لیفٹنٹ جنرل آفیسر ماجد احسان، جنرل آفیسر کمانڈنگ 10 ڈویژن میجر جنرل محمدانیق الرحمان ملک، ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل محمد عامر مجید ، صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد، صوبائی وزیر قانون راجہ محمد بشارت، چیف سیکرٹری ، آئی جی سمیت اعلی سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔اس اجلاس میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔اور مسقبل کے لائہ عمل پر بھی غور کیا گیا۔کرونا وائرس ایکشن پلان پر موثر طور پر عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر عسکری قیادت نے سول حکومت کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔اور مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے پر اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ اس غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔اور ہم صوبے کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔اور اس میں معاشرے کے ہر طبقے کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ڈیرہ غازی خان، بہاولپور ، ملتان میں 5 ہزار افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا انتظام ابتدائی طور پر کیا گیا اور اس میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

اس موقع پر کور کمانڈر لاہور لیفٹنٹ جنرل ماجد احسان نے کہا کہ پنجاب حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کر رہی ہے ۔اور ہم کو رونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کر رہے ہیں۔یہ ایک نیشنل کا ز ہے۔اور ہم سول حکومت کا بھر پور ساتھ دیں گے۔

اس اجلاس کے ساتھ ہی وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے کمر کس لی اور دفتر یا گھر بیٹھ کر صرف ویڈیو کانفرنسز کرنے کی بجائے میدان عمل میں نکلے پڑے اور پنجاب کے طول و عرض کے طوفانی دورے کیے جو کہ ابھی تک جاری ہیں۔

کوئی بھی صورت حال کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے عمال ان کے ساتھ ہیں تو وہ کسی قدر اطمینان میں ہو جاتے ہیں۔غیظ و غضب تب ہوتا ہے جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ وہ تو پریشانی کا شکار ہیں اور حکمران اپنے وی آئی پی دفاتر میں بیٹھ کر صرف بھاشن دے رہے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب نے اس تاثر کو ختم کیا۔اور ہر جگہ جانے کی کوشش کی۔اور بھرپور دورے کیے۔وہ تحصیل روجھان کے گاوں مٹواہ گئے اور کرونا کی وباء سے جو دہشت پھیلی ہوئی تھی اور ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ گندم جو کہ اس وقت کٹائی کا منتظر ہے اس کا جائزہ لیا اور گندم خریداری مرکز کا دورہ کیا۔اور مٹوہ میں گندم خریداری مرکز کا دورہ کیا۔اور کسانوں کے لیے کئے جانے والے انتظامات کا جائزہ لیا۔اس موقع پر موجود کسانوں میں خود بارانی تقسیم کیا۔اور کہا کہ کاشتکاروں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے ایس او پیز پر من و عن عمل در آمد کیا جائےگا۔داخلی اور خارجی راستے الگ بنائے گئے ہیں۔

قبائلی سردار جو اب وزیر اعلی ہیں۔نے جنوبی پنجاب کے دور افتادہ علاقوں کو خصوصی ٹارگٹ کیا۔تا کہ ان عملی طور پر یہ احساس ہو سکے کہ وزیر اعلی’ ان کے علاقے اور ان میں سے ہے۔چناچہ وہ ڈیرہ غازی خان کے دور افتادہ علاقے وہوا بھی گئے۔رورل ہیلتھ سنٹر کا دورہ کیا۔سنٹر میں ضروری ادویات ، ویکسین اور طبی سامان کی دستیابی کا جائزہ لیا۔اور اس موقع پر رورل ہیلتھ سنٹر کی رابطہ سڑک فوری تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح وزیر اعلی نے تونسہ ، کوٹ ادو، ساہیوال ، ملتان ، راولپنڈی دیپالپور اوکاڑہ ، کوٹ ادو سمیت پورے پنجاب کے دورے کیے۔

موقع پر صورت حال کا جائزہ لیا۔کمی بیشی کو دیکھا ۔فوری طور پر احکامات دیے۔سی ای او ہیلتھ اوکاڑہ عبدالمجید کو عہدے سے ہٹانے کا فوری حکم دیا۔اور کہا کہ کو رونا وباء کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں کوئی کوتاہئ برداشت نہیں کی جائے گی۔ہمارے معاشرے کا یہ بھی المیہ ہے کہ اگر آپ کسی سے پیار سے بات کریں تو اس کو آپ کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔جب تک گلا پھاڑ کے اور دو چار سنا کے کوئی بات نہ کرے لوگ اس کو کمزور آدمی سمجتے ہیں۔

دو دن قبل جب سی ایم ایڈوئزری کونسل کے ممبر ابراہیم حسن مراد وزیراعلئ پنجاب سے ملے تو بہت سارے موضوعات پر بات ہوئی۔

وزیر اعلی نے اس عرصہ میں بہت امپرومنٹ کی ہے۔غصے اور شور شرابے کی بجائے تحمل اور برد باری ہے۔بات اسی طریقے سے سنتے ہیں ۔جس طرح پہلے سنتے ہیں۔

ہر چند کہ جب کوئی شاہی ایوانوں میں پہنچ جاتا ہے تو کچھ عرصہ میں ہی اس کی عادات بدل جاتی ہیں۔بار تھی اور تونسہ کے لوگ اس کو کیڑے مکوڑے دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ایوانوں میں ایک مسقل طبقہ ہوتا ہے۔جو نئے مہمان کو سمجھاتا ہے کہ اب آپ پہلے والے عثمان بزدار نہیں رہے ۔اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب جس کا دل کرے وہ آپ کے پاس آ جائے۔اور لوگوں کو انتظار کروایا کریں ۔یہاں جو پہلے مکین تھے وہ دو دو دن تک ایم پی ایز کو انتظار کروایا کرتے تھے اب اگر آپ ان سے اس طرح گھل مل جائیں گے تو سٹیٹس خراب ہو گا۔

لیکن بھلا ہو قبائلی سردار کا کہ ابھی تک سادگی جیت رہی ہے۔ اور سردار عثمان بزدار کی حکومت تو مضبوط ہو ئی ہے تمام امیروں اور سرمایہ داروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔اور آگے بڑھ رہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ان کی عادات واطوار بھی تبدیل نہیں ہوئے۔بس یہی کامیابی ہے۔
اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھیں مزید نوازوں گا۔

القران۔
دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔اس میں خیال یہ رکھنا ہے کہ اصل جواب دہی آخرت میں ہو گی۔اس جواب دہی کی تیاری کرنی ہے۔یہاں تو کسی نہ کسی طرح گزارہ ہو جائے گا۔لیکن اگر وہاں حساب دینے کی تیاری کر لی تو پھر یہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

نیت صاف ہونی چاہیے ۔سادگی اور وضع داری آپ کا اصل ہتھیار ہے۔عوام الناس کے درمیان رہئے۔اپنوں کو نہیں چھوڑنا۔غیروں سے بھی شفقت کرنی ہے کہ وہ بھی آپ کی رعایا ہیں۔ہر روز سونے سے قبل صرف یہ حساب کر لیں کہ روز محشر آج کے دن کا حساب کیسے دوں گا۔تو انشاء اللہ ذاتباری کرونا سے بھی نجات دے گی اور حالات بھی اچھے ہو جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے