کورونا اور اہلِ مذہب

بحران لیڈر بناتے ہیں یا گراتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، مولانا طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی اور پیر نقیب الرحمٰن جیسے لوگوں نے کورونا کی وبا کی آزمائش میں اپنے قد بلند کئے۔ مولانا فضل الرحمٰن اُن سیاستدانوں کی صف میں شامل ہیں جن کا حق تبدیلی کی خاطر مارا گیا۔ پھر اُس حکومت نے اُن کے خلاف ہر حد پار کردی۔

مولانا چاہتے تو کورونا کے مسئلے کو حکومت کے خلاف سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے تھے لیکن کورونا کی وبا سامنے آتے ہی انہوں نے انتہائی جراتمندانہ اور مدبرانہ موقف اپنا کر لوگوں کو وہی کچھ کرنے کا کہا جو ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں۔

انہوں نے مساجد میں اجتماعات کی پابندی کے حکومتی اقدام کی مزاحمت نہیں کی اور حکومت کی طرف دستِ تعاون بھی دراز کیا۔ اسی طرح سراج الحق صاحب نے بھی پہلے دن سے یہی جراتمندانہ اور سوشل ڈسٹینسنگ پر زور دینے والا موقف اپنایا۔ جماعت کے وسائل بھی حکومت کو آفر کیے فخر کے ساتھ اپنے ڈاکٹر بیٹے کو کورونا کے مریضوں کی خدمت پر مامور کرکے دوسروں کے لئے مثال قائم کی۔

اسی طرح مفتی تقی عثمانی صاحب نے جو پہلا فتویٰ جاری کیا، وہ نہایت متوازن تھا۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے بھی یہ قابلِ ستائش قدم اٹھایا کہ لوگوں کو سوشل ڈسٹینسنگ کی تلقین کی اور میرے ٹی وی پروگرام میں اس موقف کی صراحت کے ساتھ وضاحت کی کہ انسانی جان کا تحفظ ہر عبادت سےمقدم ہے۔

اسی طرح عیدگاہ شریف کے سجادہ نشین پیر نقیب الرحمٰن صاحب نے بھی پہلے دن سے جو کوششیں کیں، اس کا محور انسانی جانوں کا تحفظ ہی رہا۔ کورونا کا پہلا کیس سامنے آتے ہی میں لکھتا اور بولتا رہا کہ حکومت کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر تمام دینی جماعتوں کے سربراہوں، علمائے کرام اور مشائخ کو جمع کرکے کورونا کے تناظر میں ایک متفقہ فتویٰ سامنے لانا چاہئے لیکن افسوس کہ حکومت اس طرف متوجہ نہ ہوئی۔

جو برائے نام لاک ڈائون ہوا اس میں پاکستان کے اندر جو شخص سب سے زیادہ کنفیوژن کا شکار رہے، وہ حکمراں ہی تھے۔ اوپر سے کسر یوں پوری کردی گئی کہ گزشتہ ہفتے لاک ڈائون میں نرمی کردی اور بعض شعبوں کو کھول دیا۔ یوں مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو جواز ہاتھ آگیا اور انہوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھانا شروع کردیا کہ فلاں فلاں کاروبار کھل سکتے ہیں تو مساجد کیوں نہیں کھل سکتیں۔

دوسری طرف حکومتی اجلاس اور فیصلے سے قبل 14اپریل کو کراچی میں تمام علما کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے مساجد کے حوالے سے لاک ڈائون ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یوں حکومت ہوش میں آئی اور صدر عارف علوی کے ذریعے علمائے کرام کا اجلاس بلایا گیا جس میں بیس نکاتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔

گویا حکومت دبائو کے آگے جھک گئی اور فیس سیونگ کے طور پر یہ بیس نکاتی ناقابلِ عمل منصوبہ بنایا گیا۔ ناقابلِ عمل میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دیہات تو کیا بڑے شہروں کی مساجد میں بھی اس معاہدے پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں مسجد کی طرف ضعیف العمر لوگ زیادہ لپکتے ہیں۔

میں عالم نہیں ہوںلیکن علمائے کرام اور دینی حلقوں یا جماعتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بہت ہوا، یوں کسی حد تک مذہبی حلقوں کا مزاج شناس ضرور ہوں۔ یوں مساجد میں باجماعت تراویح پر اصرار کرنے والے لوگوں سے بصد ادب و احترام چند سوالات کا جواب جاننا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ مساجد سب محترم ہیں لیکن مسجدالحرام اور مسجدِ نبویﷺ کا مقام تو کسی اور مسجد کو حاصل نہیں۔ اگر وہاں انسانی جان کی حرمت کی وجہ سے امسال عام لوگوں کے لئے تراویح کی نماز تو کیا فرض نمازوں میں بھی شمولیت ممنوع ہے تو ہمارے ہاں اس پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ جب پچاس سال سے زائد عمر یا پھر بیمار افراد کو گھر پر تراویح پڑھنے کا وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں آنے والوں کو تو پھر باقی لوگوں کو مسجد میں لانے پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ تراویح نفلی عبادت ہے جبکہ پانچ وقتہ نماز فرض ہے۔ فرض نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا حکم قرآن میں ”وارکعو مع الراکعین“ کی شکل میں دیاگیا ہے جبکہ باجماعت تراویح کے بارے میں قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں آیا۔ اب جب کورونا کی وبا کی خاطر دینی تعلیمات ہی کی روشنی میں فرض نمازیں دو ہفتے گھروں پر ادا کرنے پر علمائے کرام نے بھی اعتراض نہیں کیا تو پھر نفلی عبادت کے لئے باجماعت ادائیگی پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟

چوتھا سوال یہ ہے کہ علمائے کرام اور حکومت کے اس معاہدے کے باوجود علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میرے ساتھ ٹی وی انٹرویو میں اعلان کیا کہ وہ تراویح گھر پر ہی پڑھیں گے۔ اب اگر علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ اگر گھر میں تراویح پڑھ سکتے ہیں اور کسی عالمِ نے ان کے اس فیصلے کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا تو پھر دیگر علما دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال کر مسجد ہی میں باجماعت تراویح پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟

پانچواں سوال یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی رائے اور ماہرین کے مشورے کے مطابق اگر حکومتی حکم کے مطابق مساجد میں باجماعت تراویح سے گریز کیا جاتا تو اگر لوگوں کو باجماعت تراویح سے محروم رکھنا گناہ کے زمرے میں آتا بھی تو اس کی ذمہ داری کسی امام مسجد یا عالم کے کاندھوں پر نہ ہوتی۔

قیامت کے روز وہ اللہ کے سامنے یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ یا اللہ حکومتِ وقت نے پابندی لگائی تھی اور انسانی جانوں کو خطرہ تھا جس کو آپ کے احکامات کے مطابق کعبے سے زیادہ تقدس حاصل تھا۔

اس لئے ہم نے باجماعت تراویح کا احترام نہیں کیا لیکن اب اگر خدانخواستہ کسی بھی مسجد میں اجتماع کی وجہ سے کسی بھی انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تو قیامت کے روز حکومت کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی رہنما بھی ذمہ دار ہوں گے جنہوں نے باجماعت تراویح پر اصرار کیا۔ اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مفت میں یہ لوگ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لینے کے لئے کیوں بےتاب ہیں؟

آخری سوال صرف محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب سے وہ ہر سال رویتِ ہلال کے قضیے کے دوران ہمیں بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کی کمیٹی ریاست نے قائم کی ہے اس لئے شرعی لحاظ سے اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے اور مفتی پوپلزئی صاحب کی شہادتیں کتنی قوی کیوں نہ ہوں۔

ان کا اقدام ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ریاست نے انہیں یہ مینڈیٹ نہیں دیا۔ میں ہر سال مفتی منیب الرحمٰن کے فیصلے کے مطابق روزہ رکھتا ہوں اور عید مناتا ہوں حالانکہ مردان اور نوشہرہ میں مقیم میرے بیشتر رشتہ دار پوپلزئی صاحب کی تقلید کرتے ہیں چونکہ مفتی صاحب کو یہ منصب ریاست نے سونپا ہے اس لئے مجھے اگر ان سے اختلاف بھی ہو تب بھی میں رویتِ ہلال کے معاملے میں ان کی تقلید کرتا ہوں۔

اب جبکہ ریاست نے اٹھارہ اپریل کو فیصلہ کرنا تھا تو مفتی صاحب نے چودہ اپریل کو مساجد کا لاک ڈائون ختم کرنے کا اعلان کرکے ریاست کو چیلنج کیا۔ اب کیا اس معاملے میں مفتی منیب الرحمٰن، مفتی پوپلزئی کے نقشِ قدم پر نہیں گئے اور مسجد کو کھولنے کے معاملے میں جب انہوں نے ریاست سے بغاوت کرلی تو کیا پھر شہاب الدین پوپلزئی وغیرہ کے پاس بھی اب مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی سے بغاوت کا حق حاصل نہیں ہو جاتا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے