ہندوستان میں جب سے ہٹلر و فاشسٹ نظریات کا حامی نریندرا مودی برسراقتدار آیا ہے پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی مہم جوئی پر تُلا ہوا ہے اور مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں طرح طرح کی تکالیف پہنچانے کیلئے آئے روز کوئی نہ کوئی نیا حربہ استعمال کرتا ہے۔ پاکستان و بھارت کے مابین اور یو این کا سب سے طویل المدت اور پرانا مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے جہاں 5 اگست 2019 کو ہندوتوا سرکار نے ہڈدھرمی کرکے اس وادی کو غاصبانہ طور پر دیگر بھارتی یونینوں میں شامل کیا اور اس وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس علاقے کو کھلے جیل میں تبدیل کیا اور 80 لاکھ باسیوں کو اسی جیل میں بندوق کی نوک پر قید و تنہائی بامشقت میں رکھا۔
ایک طرف جنت نظیر وادی کشمیر میں بھارت بے نظیر اقدامات کررہا تھا تو دوسری طرف پوری دنیا کے ممالک و تنظیمیں آنکھیں بند کرکے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھیں۔ ایسے میں پاکستان یک تنہا جتنا چیخ و چھلا سکتا تھا اتنا پاکستان اپنے کشمیریوں بھائی بہنوں کے لئے چیخا، چھلایا۔ لیکن سننے والا کون تھا، کوئی نہیں، کیونکہ سب تو خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔
5 اگست سے لے کر موجودہ تاریخ تک تقریبا 8 سے زائد ماہ ہوگئے ہیں جب کشمیری اپنے ہی گھر، اپنے ہی دیس میں لاک ڈاؤن سے بھی بدتر حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ آہیں و سسکیاں تو بھر رہے ہیں لیکن ان کی آہیں و سسکیاں سننے والا کوئی نہیں۔ یہاں تک کہ54 ممالک کا اسلامی اتحاد بھی مسئلہ کشمیر پر خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہا ہے۔ بلکہ اس اتحاد کے اہم ممالک سعودی عرب اور دبئی تو بھارت جاکر ہندوؤں کے ساتھ دوستی اور کاروبار کو مزید تقویت و وسعت دے رہے ہیں۔
خود کو جمہوریت کی چیمپئین و ایشیا کی سب سے بڑی معیشیت کہنے والی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہر 9 کشمیریوں کے سر پر ایک فوجی مسلط ہے، جبکہ اگر دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس نامی وباء سے حفاظت کے پیش نظر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 71 ہزار مریضوں کیلئے صرف ایک وینٹی لیٹر جبکہ 39 سو مریضوں کیلئے ایک ہی ڈاکٹر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اب تک کشمیر میں سوا لاکھ سے زائد افراد کا قتل عام ہوچکا ہے۔
ہندوستان کے ہندوتوا سرکار کی ہڈدھرمی یہاں نہیں رکھتی بلکہ مقبوضہ کشمیر کو شیرازہ بکھیرنے کے بعد بدمعاش بھارت نے آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کی نہ صرف مہم شروع کی بلکہ احتجاج کرنے پر مسلمان شہریوں پر سیدھی گولیاں برسانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ دریں اثناء کشمیر میں 10 سال سے زیادہ عرصہ سے مقیم بھارتی شہریوں کو وہاں کی شہریت و ڈومیسائل دینے کا قانون بھی رائج کردیا۔
بہرحال ان تمام واقعات پر جہاں ایک طرف تمام ممالک نے خودساختہ زبان بندی کر رکھی اور دوسری طرف بھارت اپنی ناپاک چالیں چل رہا تھا وہی پر قدرت نے بھی ایک چال چلی کہ کورونا وائرس نامی وباء پوری دنیا پر مسلط کردی۔ آج پوری دنیا کا بندوق کی نوک پر تو نہیں لیکن لاک ڈاؤن ہوا ضرور ہے۔ ہر شخص اپنے گھر میں قید ہے۔ کبھی بھارت کشمیریوں کو قتل کرکے انکے عزیز و اقارب کو لاش تدفین کیلئے نہیں دیتا تھا آج کورونا وائرس کسی کو بھی اسکے عزیز کی لاش کے قریب لگنے نہیں دیتا تھا۔ ایک نفسا نفسی اور ہَو کا عالم ہے۔
اب کورونا وائرس بھی آگیا لیکن بھارت اپنی ہڈدھرمیوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے با ز نہ آیا۔ بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے کا الزام تبلیغی جماعت اور مسلمانوں پر لگادیا۔ حالانکہ اس وائرس نے کسی مذہب، رنگ، نسل، قوم کی خاطر نہ کی اور اس نے چھن چھن کر ہر شخص، ہر ملک، ہر خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اسی لیے پوری دنیا اس وائرس کے خلاف جنگ میں شانہ بشانہ کھڑی نظر آرہی ہے۔ لیکن اگر کوئی نہیں کھڑا تو وہ بھارت ہے جہاں وائرس کے نام ر ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔
بھارت میں ایک بار پھر مسلمانوں کو تعصب، ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں انکو ڈنڈوں سے پیٹا جارہا ہیں۔ صرف پیٹنے پر اکتفا نہیں کیا جارہا بلکہ مسلمانوں کو اشیائے خور و نوش لینے نہیں دی جارہی، مسلمان مریضوں کا ہسپتالوں میں علاج کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں اُتر پردیش حکومت نے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب میں تمام ہیود و قیود کو پھلانگتے ہوئے اخبار میں اشتہار بھی شائع کردیا گیا۔ جب کہ مسلمانوں کے خالف تشدد، تعصب، ظلم و بربریت میں کمی کی بجائے آئے روز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو سرکار کی نفرت و تعصب ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، ظلم ہے جو رکتا ہی نہیں۔ اور کیونکر کر نفرت و تعصب ختم ہو، ظلم کیونکر کر رکھے۔ کوئی روکنے والا جو نہیں۔ ہاں ایک بھارت سرکار ہی ہے جو معصوم کشمیریوں اور مسلمانوں کو ہر روز نئے طریقے سے مارا جارہا ہے۔ کبھی انہیں دہشت گرد قرار دے کر تو کبھی کورونا وائرس پھیلانے کا ذریعہ بتاکر ان کی زندگیاں چھیننی جارہی ہیں۔
ایک اور دو ماہ گھروں میں قرنطینہ اختیار کرنے کے باعث پوری دنیا میں لوگوں کو ذہنی دباؤ و پریشانیوں کو سامنا ہے اور اس ذہنی دباؤ و پریشانی کو کم کرنے کیلئے میڈیا کے ذریعے مختلف پروگرامات منعقد کیے جارہے ہیں جبکہ ہر شخص اس مسئلے کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ ان تمام ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ذرا کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر بھی نگاہ کرم کردیجئے۔ جو پچھلے 7 دہائیوں سے بھارتی ظلم و جبر کا شکار ہوتے آرہے ہیں۔ جبکہ گزشتہ 8 ماہ سے اپنے گھروں میں مقید کشمیریوں کے ذہنی دباؤ و پریشانیوں کا احساس کرنا چاہئیے۔