بے راہ روی کا سدِباب

ہمارے ہر دلعزیز مبلغ اورمذہبی سکالر‘ جن کا دعا کاانداز اتنا رِقت آمیز ہوتاہے کہ ہم جیسے ناقابل اصلاح گناہگاروں کا دل بھی دہل جاتا ہے‘ نے کورونا وائرس کے حوالے سے بڑے اہم فرمودات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ اللہ سے اپنے گناہوں پہ تو بہ کریں ‘اللہ سے رجوع کریں اورنوافل پڑھیں۔ قبلہ مولانا‘ وزیراعظم عمران خان کے امداد مانگنے کی غرض سے ٹیلی تھون کے آخر میں دعا فرما رہے تھے۔

ٹی وی پہ ٹیلی تھون اورمولانا صاحب کی دعا سننے اوردیکھنے سے محروم رہا۔ اخبارات سے آگاہی ہوئی کہ مشہور مبلغ دین نے کیا فرمایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹے سے وائرس کے ساتھ دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ پھر انہوں نے بڑے پتے کی بات کہی کہ ہمیں اس آفت سے نجات کیلئے بے حیائی کو روکنا ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میرے دیس کی بیٹیوں کو نچایا جارہاہے ۔ جب مسلمان کی بیٹی اورنوجوان بے حیائی کی طرف چلے جائیں تو پھر اللہ کا عذاب آتاہے ۔

یہ بہت اہم نکتہ ہے اوراس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔البتہ ایک حساس پہلو ضروراُٹھتاہے کہ اگر اس وبا کی صورت میں مسلمانوں کو بے حیائی کی سز ا مل رہی ہے تو جو ممالک اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلاتے وہ کس وجہ سے اس بیماری کی زد میں آئے ہیں۔ مثال کے طورپہ چین جیسے ملک میں لڑکیوں اورلڑکوں کاملنااورآپس میں ناچ گانا کرنا بے حیائی کے زمرے میں نہیں سمجھاجاتا۔ پھر سوچنے کا مقام ہے کہ بیماری وہاں نہ صرف آئی بلکہ وہیں سے شروع ہوئی اورپھراس وائرس نے ملکوں اورسرحدوں میں کوئی تمیز نہ برتی اورہر اطراف پھیلتی ہی گئی ۔

اوپر بیان کردہ استدعا سے ایک نکتہ یہ بھی نکلتا ہے کہ چین نے تقریباً وائرس پہ کنٹرول پالیاہے۔ گو چین اورپاکستان میں بہت گہرے مراسم ہیں ایک بنیادی فرق البتہ یہ ہے کہ جہاں ہم اپنی مخصوص عبادات پہ بہت زور دیتے ہیں چین میں مذہبی عبادات کاوجود سرے سے ہے ہی نہیں ۔ ایک زمانے میں چین کے عوام چیئرمین ماؤ کو تقریباً دیوتا کا مقام دیتے تھے اور وہ چھوٹی لال کتاب جس میں اُن کے فرمودات درج تھے کو پاس رکھنا اورموقع موقع پہ لہرانا چین کا ہر باشندہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔ جب چین کا پہلا سیارہ خلا میں گیا تو چینی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ سائنسی معرکہ بھی چیئرمین ماؤ کے افکار کی بدولت ممکن ہواہے‘ لیکن جس مروّجہ مفہوم میں لفظ عبادت سمجھا جاتاہے چین کے نظریات میں اُس کی کوئی گنجائش نہیں۔ توپھر سوال اُٹھتا ہے کہ چین نے کن طریقوں سے اس وائرس کو کنٹرول کیا۔

ظاہر ہے کہ چین کا اپنا طریقہ ہے اورہمارا اپنا۔ مراسم ہمارے بڑے گہرے ہوںگے لیکن یہ لازم نہیں کہ ہربات میں چین کی ہم تقلید کریں‘ لہٰذا جہاں چین اوردیگر مغربی ممالک میں اس وائرس کے حوالے سے عبادات سے زیادہ سائنسی تحقیق پہ زور دیاجا رہا ہے اُس سے یہ نتیجہ ہر گز اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ ہم عبادات پہ زور نہ دیں۔ یہ تو اپنے اپنے عقیدے اورایمان کی بات ہوتی ہے اورآفت چھوٹی ہو یا بڑی اُس سے نبردآزما ہونے کیلئے ہمارا طریقہ اپنا ہی رہے گا اوراُس پہ کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا۔

لیکن مولانا کے ارشادات گرامی سے بے حیائی کا پہلو تو اُجاگر ہوتاہے ۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بے حیائی کی سزا اس وبا کی صورت میں نازل ہوئی ہے تو وہ درست ہی سمجھتے ہوں گے اور اُن کی بات سے انکار ممکن نہیں؛ البتہ یہاں تھوڑی کنفیوژن کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ زیادہ سمجھ نہ رکھنے والے اشخاص کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتاہے کہ کس مخصوص بے حیائی کی بات مولانا صاحب فرما رہے ہیں۔ دیگر معاشروں میں شاید جھوٹ ، فریب ، رشوت ، سفارش ،ذخیرہ اندوزی اورگندگی کو بے حیائی سمجھا جاتاہو لیکن ہمارے ہاں ایسے جیّد علماء کی کمی نہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ ایسی برائیوں کا ذکر اپنی جگہ درست ہوگا لیکن اصل بے حیائی توناچ گانا اورلڑکیوں لڑکوں کا میل جول ہے ۔

اوپر کی تشریح کو سوفیصد درست مان لیاجائے پھر بھی یہ پوچھا جاسکتاہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں اس قسم کی بے حیائی کتنی ہے اورکہاں پائی جاتی ہے۔ بازاروں اورگلیوں میں تو ایسی بے حیائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ خواتین با پردہ نہ بھی ہوں تو عموماً سروں کو ڈھانپ کے ہی رکھتی ہیں۔ اذان ہوتو مستند بیگمات بھی سروں پہ دوپٹے کرلیتی ہیں۔ جو خواتین فوج اوردیگر عسکری اداروں یا پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں وہ بھی اپنی سروس کی ٹوپیوں کے نیچے دوپٹہ کرتی ہیں۔

ایک آدھ میوزک کنسرٹ میں دوشیزائیں تالیاں بجا لیتی ہوں گی لیکن اتنے بڑے عالم جتنا کہ ہمارے مولانا صاحب ہیں اُن کو تو ایسی چھوٹی موٹی حرکتوں کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہیے۔ جہاں تک لڑکیوں لڑکوں کے ناچ گانے کا سوال ہے کوئی ہم جیسوں کو بتائے تو سہی کہ ایسے مناظر کہاں پہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ کہنا پڑے گا کہ بے راہ روی کے شکار مرد حضرات کہیں بے حیائی کے مناظر ہوں اس طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہم میں سے اکثرمردوں کی یہ فطرت ہے ‘ لیکن ہمارے معاشرے پہ یہ الزام کبھی نہیں لگا کہ یہاں بے حیائی عام ہے۔ ہمارے معاشرے پہ تو تنقید یہ ہے کہ گھٹن کا شکارہے اورنہایت بور قسم کا معاشرہ ہے ۔ مولانا جیسے عالم کو وہ بے حیائی کہاں نظر آگئی جو ہم جیسی گناہگار آنکھوں کو نظر نہیں آتی‘ اورجیسے اوپر عرض کرچکے ہیں جھوٹ ، فریب اورمنافع خوری تو ہمارے معاشرے میں بے حیائی کے زمرّے میں آتے ہی نہیں۔

2014ء کے دھرنوں کا واقعہ ہے کہ میں ایک ٹی وی پروگرام میں جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کے ساتھ شریک تھا۔ حافظ صاحب بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں۔ بات جیسی بھی کریں آنکھوں میں ایک چمک رہتی ہے۔ اُس پروگرام میں فرمانے لگے کہ یہ جو پی ٹی آئی کے لوگ ناچ گانا کررہے ہیں ایسے مناظر تو نائٹ کلبوں میں دیکھے جاتے ہیں۔پھرانہوں نے تھوڑی سی نائٹ کلبوں کی منظر کشی کی ۔مولانا صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ لگتا یوں ہے کہ آپ نائٹ کلبوں کے بارے میں اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں۔ حافظ حمداللہ حسِ مزاح رکھتے ہیں۔ میں ہنسا وہ بھی ہنس پڑے ۔ وہ تو چلیں مذاق تھا ۔ یہ بے حیائی والی بات تو بڑی سنجیدگی سے کہی گئی ہے ۔

اس معاشرے میں امیر غریب کا بہت فرق ہے۔ جو دولت مند ہیں اُن کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ غربت ہے تو پھیلی ہوئی ہے ۔ کئی لوگ تو اس تفریق کو بے حیائی کا نام دیں گے۔ ہمارے ڈاکٹر رو رہے ہیں کہ حفاظتی تدابیر کریں، یہ وبا بڑھ گئی تو ہمارے ہسپتال اسے ہینڈل نہیں کرپائیں گے‘ ابھی بیماری بڑھ رہی ہے ،اس کا زور نہیں ٹوٹا۔ زیادہ لو گ وبا سے متاثر ہوئے تو ہمارے پاس مطلوبہ تعداد میں وینٹی لیٹر ہی نہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ نہ ہوگی تو مریضوں کو راہداریوں میں رکھنا پڑے گا۔ بہرحال مولانا کو ایک بات کی داد دینی پڑے گی کہ گھما پھرا کے انہوں نے یہ بات کہہ دی کہ عبادات کاانعقاد گھروں پہ بھی ہوسکتاہے ۔یعنی لازمی نہیں کہ آپ نماز یا تراویح باجماعت ہی پڑھیں۔

ایک اوربات کا ذکر شاید یہاں بے جا نہ ہو۔یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وزیراعظم سے مولانا خاصا لگاؤ رکھتے ہیں۔ اس موقع پہ بھی انہوں نے اس کا ثبوت فراہم کیا۔ وزیراعظم کے بارے میں اُن کے الفاظ ملاحظہ ہوں ”وزیراعظم آپ اکیلے ہیں ، دیانت دار ہیں۔ عمران خان کو اُجڑا چمن ملا ۔ کہاں تک آباد کرے گا ‘‘۔ اب تو اُجڑے چمن کو سنبھالے خاصا وقت گزر چکاہے ۔ کچھ تو پتا چلے کہ چمن کو سنبھالنے کا ہنر آتا جارہا ہے۔ یا صرف دعا سے ہی کام چلاناہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے