‏روایتی خریداری بمقابلہ آن لائن خریداری

کرونا کی وجہ سے بازاروں کی رونقیں ماند ہیں ۔۔ اور لوگ خصوصاً خواتین گرمیوں کے لیے ” آنلائن ” شاپنگ کرنے پر مجبور ہیں ۔۔

‏موجودہ لاک ڈاؤن کے دوران جہاں پوری زندگی کا پہیہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے وہیں خریداری کے طور طریقے بھی یکایک بدل گئے۔

‏بازار جا کر فیملی شاپنگ کی جگہ آن لائن شاپنگ نے لے لی ہے۔

‏ورنہ رمضان سے پہلے بازاروں میں وہ رش  ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔۔حد تو یہ ہے  کہ شاپنگ کے زیادہ دلدادہ لوگ تو رمضان کی افطاری کے بعد بھی اکثر بازاروں میں پائے جاتے ہیں ۔۔ بندہ حیرت اور تجسس میں پڑ جاتا ہے کہ آخر ایسی کونسی خریداری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔

‏آن لائن شاپنگ کے مثبت پہلو دیکھے جائیں تو موجودہ حالات میں ایک نعمت سے کم نہیں ۔۔ وقت اور  کرایہ  دونوں کی بچت ہے ، لیکن اسکی کسر برانڈز اور آنلائن سٹورز یکطرفہ قیمت کا تعین کرکے پوری کر دیتے ہیں ۔‏جبکہ ان پراڈکٹس کے معیار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ، ‏انٹرنیٹ پر خوشنما تصویریں دیکھ کر کی گئی شاپنگ اکثر صارفین کو دھوکہ ہی دیتی ہے،‏اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ پھیری والے اور چھوٹے دکاندار ہوتے ہیں جو انٹرنیٹ پر اپنی پراڈکٹس بیچنے کی اہلیت اور سکت نہیں رکھتے ۔

‏خیر روایتی شاپنگ ایک آرٹ ہے ۔۔ جی ہاں بالکل یہ بات سچ ہے ، ‏اپنے ارد گرد دیکھ لیجیے ہر گھر ، خاندان یا محلے میں ایک ایسی خاتون ضرور ہوتی ہیں جنہیں ” شاپنگ ایکسپرٹ” کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔۔ پھر کسی کی شادی ہو یا کوئی اور خاص فنکشن ان خواتین کی ڈیمانڈ میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے ۔۔

‏یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو بارگینینگ کی ماہر تصور کی جاتی ہیں ۔۔ پانچ ہزار کی چیز دو ہزار کے ریٹ پر اڑ جاتی ہیں ۔۔اسی لیے دکاندار بھی بہت کایاں ہو چکے ہیں وہ پہلے سے چیز کی قیمت ڈبل بتاتے ہیں تاکہ کم کرکے حاتم طائی کی قبر پر فلائنگ کک مار سکیں ۔۔

‏پھر آتی ہیں وہ خواتین جو بغیر بحث کے شاپنگ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ ایسی خواتین کو گھر والے زیادہ عقلمند تصور نہیں کرتے اور انہیں بس شاپنگ بیگز اٹھانے کے لیے ساتھ لیا جاتا ہے

‏خواتین کی ایک وہ قسم بھی تو ہے جو اپنے شوہروں کو ساتھ لے جا کر دوکانداروں سے سینکڑوں نمونے نکلوا لیتی ہے تاہم وہ فیصلہ کرتے وقت شوہر کی رائے لینے کو اولیت دیتی ہے۔ ان میں قوت فیصلہ کی کمی سے چیز کے خریدنے اور نہ خریدنے کا سارا بوجھ شوہر کے ناتواں کندھوں پر آن پڑتا ہے اور دوکانداروں کی نظریں بھی شوہروں کے اشارہ ابرو کا تعاقب کرنے لگتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ گھر آکر اگر اس خریداری پر کوئی نکتہ چینی کرے تو سارا الزام شوہر پر دھر دیا جاتا ہے ۔

‏گھر واپسی پر پتا چلتا  ہے کہ کچھ زیادہ مہنگا خرید لیا ہے ۔۔ اور کسی کا رنگ پسند نہیں ہے ۔۔ کسی بچے کی میچنگ ٹھیک نہیں ہے تو کوئی سائز میں کم زیادہ ہے ۔اور ان چیزوں کی تبدیلی یا وآپسی پر اندازہ ہوتا ہے کہ  جو دکاندار ٹھنڈے ٹھار روح افزا جیسے میٹھے  تھے ۔۔ اب ماتھے آنکھوں پہ رکھے نیم کریلے جیسے کڑوے بن چکے ہیں ۔۔ خیر خواتین بھی کب انہیں زیادہ اہمیت دیتی ہیں ۔۔ کہ دونوں اطراف کا یہ روزمرہ کا معمول ہے ۔۔اور یہ ایسے ہی چلتے رہنا ہے کیونکہ دنیا گول ہے

‏اور روایتی خریداری کا یہی وہ ” حسن” ہے جو خواتین آن لائن شاپنگ میں مِس کر رہی ہیں ۔۔ کہ یہ سہولت وہاں دستیاب نہیں یا بہت محدود اور کڑی شرائط کے ساتھ لاگو ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے