خیبرپختونخوا:بلدیاتی انتخابات ملتوی،46 ارب روپے ضائع

خیبرپختونخوا میں رواں سال بلدیاتی انتخابات کی امیدیں دم توڑ گئیں اور صوبائی حکومت نے واضح کیا ہے کہ کورونا کے باعث بلدیاتی انتخابات کا انعقاد موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث جہاں مقامی حکومتوں کےلئے مختص 46 ارب روپے ضائع ہوگئے ہیں ، وہیں افسر شاہی نے اختیارات کو عوامی نمائندوں کو سونپنے کی بجائے اپنے ساتھ رکھنے کا اختیار بھی حاصل کرلیاہے۔ محکمہ بلدیات کے مطابق نومبر تک بلدیاتی انتخابات کے آثار موجود نہیں ہیں اور اس کے بعد دیکھاجائےگا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔

[pullquote]خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟؟ ۔۔۔ [/pullquote]

2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت صوبے کے 24 محکموں کا اختیار ضلع ، تحصیل اور یلیج و نیبر ہوڈ کونسل کو دیا گیا تھا، تاہم بعدازاں 6 محکموں کا اختیار مقامی حکومتوں سے واپس لیکر صوبائی حکومت کو دئیے گئے۔ خیبر پختونخواحکومت نے بلدیاتی حکومتوں کے چار سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں مزید ترامیم کیں اور مقامی حکومتوں کو صرف 9 محکموں کے اختیارات دئیے۔ رواں مالی سال کے دوران مقامی حکومتوں کےلئے صوبے میں سب سے زیادہ 46 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، لیکن مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں تھیں اور اس رقم میں سے صرف ایک ارب روپے مقامی سطح پر دفاتر کے اخراجات کےلئے استعمال کئے گئے، محکمہ بلدیات کے اعلیٰ افسر کے مطابق صوبائی حکومت بالخصوص وزراء اور اراکین اسمبلی سب سے زیادہ بلدیاتی انتخابات کے مخالفین میں شامل ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی حکومتوں کے آنے سے بیشتر ترقیاتی فنڈز ناظمین و کونسلرز استعمال کرسکیں گے، اسلئے صوبائی حکومت یہ فنڈز مقامی حکومتوں کی بجائے خود استعمال کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں اور صوبائی حکومت کا دور دور تک انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ، تاہم معاون خصوصی برائے بلدیات کامران بنگش کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات میں سنجیدہ ہیں ۔ کورونا کے باعث انتخابات کو موخر کیا گیاہے ، حالات ساز گار ہوتے ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائےگا۔

[pullquote]بلدیاتی انتخابات کےلئے قانونی طریقہ کار کیا ہے؟؟۔۔۔ [/pullquote]

گزشتہ سال 28 اگست کو بلدیاتی حکومتوں کے خاتمے کے بعد صوبائی حکومت نئے حد بندیوں کےلئے قواعد و ضوابط بنانے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے اور الیکشن کمیشن نے متعدد بار صوبائی حکومت کی سرزنش کی کہ جلد از جلد قواعد و ضوبط بنائے جائے۔ 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 1998ء کے مردم شماری کے تحت ہوئے تھے، تاہم 2017ء میں نئے مردم شماری کا انعقادکر کے ان کے عبوری نتائج کو تسلیم کرکے 2018ء کے عام انتخابات کرائے گئے اور اس کےلئے نئی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ نئے بلدیاتی انتخابات کےلئے لازم ہے کہ 1998ء کی بجائے 2017ء کے مردم شماری کے تحت نئی حدبندیاں کی جائیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ افسر کے مطابق صوبائی حکومت نے طویل انتظار کے بعد اپریل کے آخر میں ان رولز کی منظوری دی، جس کے تحت اب الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا تعین کرےگی۔ نئے حلقہ بندیوں کے تعین میں پانچ سے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا، اور اس وقت کورونا کے باعث عام حالات نہیں بلکہ غیر معمولی حالات ہیں۔ خدشہ ہے کہ حلقہ بندیوں میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے، جس کے باعث رواں سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

[pullquote]ترقیاتی فنڈز کون استعمال کریگا؟؟۔۔۔ [/pullquote]

رواں مالی کے بجٹ میں مقامی حکومتوں کےلئے 46،ارب روپے مختص کئے گئے تھے، بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے کے باعث صوبائی حکومت کو پہلے سے فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ محکمہ خزانہ کے ایک افسر کے مطابق فنڈز کی قلت کے باعث صوبائی حکومت اس صورتحال سے فائدہ اٹھائے گی اور ناظمین کو ترقیاتی کاموں کےلئے جو فنڈ دیا جانا تھا، اب وہ دوسرے محکموں کے ذریعے استعمال کیا جائےگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے