نعیمہ مہجور نےمیرے منہ کی بات چھینی

ہماری بی بی سی کی رفیقِ کار نعیمہ احمد مہجور نے بڑی کمال کی تجویز پیش کی ہے بلکہ یوں کہوں کہ میرے منہ کی بات چھین لی ہے۔ نعیمہ خالص کشمیری ہیں، وادئ کشمیر میں پلی بڑھی ہیں اور شاعرِ کشمیر غلام احمد مہجور مرحوم کی بہو ہیں۔

آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور نعیمہ کا خطاب کشمیر کے باشندوں سے ہے جن کے بارے میں نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا تک ان کی رسائی ہے یا نہیں۔ اہالیانِ کشمیر مہینوں سے تاریخ کے درد ناک لاک ڈاؤن میں جکڑے ہوئے ہیں اور خدا جانے کب تک جکڑے رہیں گے۔

نعیمہ نے فیس بُک پر لکھا ہے کہ لوگوں کو چاہئے اپنے آئے دن کے حالات کہیں قلم بند کرتے جائیں، ان کے اردگرد کس روز کیا ہوا، کیا دیکھا، کیا سننے میں آیا اور کیا امکانات نظر آ رہے ہیں، لکھیں، باقاعدگی سے لکھیں۔ اسے ڈائری کہیں، روزنامچہ کہیں یا تاریخ کہیں، مگر لکھیں۔

اس کے بعد نعیمہ کہتی ہیں کہ لکھ کر آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑ جائیں تاکہ ان کو معلوم رہے کہ ان کے باپ دادا پر کس وقت، کس زمانے میں، کس کے ہاتھوں کیا گزری۔

یہ بڑی کام کی تجویز ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کشمیر پر جو بپتا ٹوٹ رہی ہے وہ کوئی خبر یا واقعہ نہیں۔ وہ تاریخ ہے۔ ہر روز جو گزر رہا ہے، اپنے لمحو ں کو تاریخ میں ڈھالتا جا رہا ہے مگر تاریخ ہوا میں نہیں لکھی جا سکتی۔

سینہ بہ سینہ، داستان گویوں کی طرح بیان ہوتی رہی تو ہر گزرتا دن اس بیانیے میں نئے نئے رنگ بھرتا جائے گا اور بیان کاری کی صداقت راہ میں کہیں رُل جائے گی۔ اس لئے بہتر راستہ یہی ہے کہ روز کے روز جو بھی اور جیسے بھی آپ پر یا آپ کے اطراف پر گزرے، جہاں تک ممکن ہو، صاف صاف اور دیانت داری سے رقم کرتے جائیں۔

پھر اپنے احوال کی یہ داستان وقت کے جزدان میں لپیٹ کر لمحوں کے طاق پر رکھ کر احتیاط سے چھوڑ جائیں یوں کہ جب نئی نسلیں ہوش سنبھالیں تو کوئی انہیں راتوں کے سنّاٹوں میں، چراغ کی دھیمی روشنی میں سنا سکے کہ ان کے بزرگوں نے کیسے کیسے کرب جھیلے۔

نعیمہ احمد مہجور کی اس تجویز کے جواب میں خود کشمیر کے اندر کسی نے لکھا کہ علاقے میں ایسے اہل قلم ہی نہیں جو گزرتے لمحوں کا حال لکھ سکیں۔ یہ تبصرہ ایک عجیب سی شکست کا پتا دیتا ہے۔ کیا کشمیر میں اہلِ قلم موجود ہی نہیں یا موجود ہوتے ہوئے بھی اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ ہم باہر کے اجنبی اصل صورتِ حال سے واقف نہیں۔

مگر ہم اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ روزنامچہ لکھنے والوں سے کون کہتا ہے کہ وہ ادب کے شاہ پارے لکھیں اور قلم کاری کے کمالات دکھائیں۔ تحریر کو یوں مانجھنے کے عمل میں عبارت کا حسن تو آجاتا ہے مگر سچائی کا وہ بھولپن غارت ہو جاتا ہے جو صداقت کی سب سے بڑی پہچان ہوا کرتا ہے۔ میری عمر صحافت میں گزری ہے۔

ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ گلی کوچوں کے لوگوں کی دی ہوئی گواہی کو سرے سے تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب رپورٹنگ کے درخت سے ایک نئی شاخ پھوٹی جسے سِٹیزن رپورٹنگ کا نام دیا گیا۔

یعنی راہ چلتے عام لوگوں کا بیان۔ یوں سمجھئے کہ جب سوویت یونین کی سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی اور دولت مند افغانیوں نے پناہ کے خیال سے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر دلّی پہنچنا شروع کیا تو اس وقت کے نام ور رپورٹر مارک ٹلی دلّی کے ہوائی اڈے پر جا پہنچے اور کابل سے آنے والے مسافروں سے وہاں کے حالات پوچھنا شروع کئے۔

اس پر لندن میں بیٹھے ہوئے بی بی سی کے اربابِ اختیار اچانک چونکے اور مارک ٹلی کو ارجنٹ پیغام بھیجا گیا کہ رپورٹنگ کا یہ طریقہ فوراً ترک کیا جائے کیونکہ یہ مستند نہیں اور اس میں غلو سے کام لیا جا رہا ہے۔ مارک ٹلی کو ہوائی اڈے سے واپس جانا پڑا۔

پھر ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ سوات کے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہوا اور انہوں نے وہاں اپنی نشرگاہ قائم کرکے اپنا پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ اخباری نامہ نگار جانیں بچا کر علاقے سے نکل گئے اور ایک اسکول کی نوعمر طالبہ نے اپنے والد کی مدد سے سوات کی ڈائری لکھنا شروع کی جو بی بی سی سے نشر ہونے لگی اس کے علاوہ سٹیزن رپورٹنگ کا سلسلہ بھی چل نکلا۔

عام لوگوں کے بنائے ہوئے وڈیو بھی نشر ہونے لگے اور ہوتے ہوتے گُل مکئی کے نام سے رپورٹیں بھیجنے والی لڑکی خود بڑی رپورٹ بن گئی۔

طالبان نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ مغربی دنیا نے اسے اپنے ہاں پناہ دی، اس کا علاج معالجہ کیا پھر وہ دن بھی آیا جب وہ ملالہ یوسف زئی کے نام سے امن کے نوبیل انعام کی مستحق قرار پائی اور آج دنیا میں اسے غیرمعمولی شہرت حاصل ہے اسی ایک ڈائری، ایک روزنامچے کی بدولت۔

اور اب آج کی آخری بات۔ سنہ بیاسی میں جب میں پرانی اور نادر اور نایاب کتابوں کی تلاش میں ہندوستان اور پاکستان کا دورہ کر رہا تھا تو ایک دل چسپ بات میرے علم میں آئی۔ دلّی میں قومی دستاویز احتیاط سے رکھنے والے نیشنل آرکایئوز نے اعلان کیا کہ جو لوگ اپنے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں اور مخطوطے فروخت کرنے کے لئے ادارے میں آتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مذہبی کتابیں بہت ہو گئیں، آئندہ یہ ادارہ صرف بزرگوں کے چھوڑے ہوئے خط، روزنامچے اور ڈائریاں خریدے گا۔

سب ہی جانتے ہیں اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت کے دوران لکھے جانے والے خط اور روزنامچے بڑے اہتمام سے محفوظ کئے گئے ہیں اور ان کی صداقت کو جانچنے کے لئے آج کے جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کو کام میں لایا جا رہا ہے۔

یہ ہے ہاتھ کے ہاتھ لکھے جانے والے حالات جو اب باضابطہ تاریخ کے خزینے کا حصہ بنیں گے اور آنے والے زمانے دیکھیں گے کہ دنیا کن قیامتوں سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے مگر داستان یہاں ختم تو نہیں ہوتی۔

وقت کی بداعمالیاں جب تک اندھیرا بن کر سرزمینوں پر چھائی رہیں گی، قلم سے ٹپکا ایک ایک قطرہ چراغ بن کر لو دیتا رہے گا اور وہ بھی محبتوں کی اک ذرا سی حرارت کے ساتھ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے