وبا کے دنوں کی عید

وبا کے دن ہیں، روزمرہ کی زندگی میں خلل واقع ہوا ہے، عوام کی پریشانیاں بڑھ گئیں ہیں، لاک ڈاؤن کے سبب تجارت، ذرائع آمدن اور معیشت پر انتہائی برا اثر پڑا ہے، اور تو اور متمول طبقہ اور صاحب حیثیت بھی روبزوال اور گرتی معیشت کا رونا رو رہے ہیں۔ کورونا نے زندگی کا مزہ پھیکا کر دیا ہے، ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے، بے چینی اور اضطراب کا عالم ہے، کئی گھرانے فاقوں پر مجبور اور کئی سفید پوش اندرونی احوال بتانے سے کترا رہے ہیں کہ عزت نفس مجروح نہ ہو۔

وبا کے دنوں میں چند ایک کو چھوڑ کے عمومی مذہبی مزاج میں جزباتیت اور تذبذب دیکھنے میں آیا، اس آفت کی گہرائی اور اس کے دیرپا عالمی حیاتیاتی اثرات کو سمجھنے سے قاصر رہے، عوام و خواص کا ایک طبقہ اس قسم کے کسی وائرس یا وبا کے وجود سے ہی انکاری ہے، ان کا خیال ہے کہ اپنے مذموم پس پردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر یہ ڈرامہ رچایا ۔ روایتی علماء کا ایک طبقہ موجودہ وبا کو کلی طور پر گناہوں کی نحوست اور اللہ تعالی کی ناراضگی گردانتا رہا کہ یہ نیکو کاروں کے لئے ابتلاء و آزمائش اور گناہگاروں کے لئے عذاب کی ایک صورت ہے، یوں عام نمازیوں پر مساجد کے دروازے بند کرنے کی مخالفت کی، کہ اس سے اللہ تعالٰی کی ناراضگی میں اضافہ ہوگا۔

اگر چہ بعض اکابر و مفتیان کرام نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے وبا کے دنوں میں بھی مساجد کو آباد رکھنے کا یہ حل نکالا کہ امام مسجد بشمول عملہ درمیان میں فاصلہ رکھ کر صف بندی کر کے نماز ادا کریں۔ اس پر کوئی خاص عمل نہ ہو سکا اور بالآخر حکومت کو علماء کے کچھ مطالبات ماننے پڑے اور اب رمضان المبارک میں صورتحال یہ ہے کہ بیشتر مساجد خصوصا دیہاتوں میں بالکل بھی ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو لفظ پڑھے ہوئے آئمہ اپنے ہی اساتذہ اور اکابر کی ہدایات سے روگردانی کر رہے ہیں۔

حکومت ابتداء ہی سے تذبذب کا شکار رہی، صورتحال کی سنگینی کے باوجود بروقت حفاظتی تدابیر اور ہنگامی اقدامات سے غفلت برتی اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنی بدتر مینیجمنٹ اور صورتحال سے باحسن نمٹنے میں ناکامی کا سارہ ملبہ اہل مذہب پر ڈال دیا۔ ایس او پیز پر عمل کرنے کے باوجود شہروں میں بعض آئمہ اور خطبائی کو ہتھ کڑیاں لگا کر پابند سلاسل کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، شرمناک اور قابل مذمت ہے۔عموما ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز کی حالت ناگفتہ بہ رہی۔

کوٹہ پورا کرنے کے لئے دل، گردہ اور عام بیمار مریضوں کو کورونا کے کھاتے میں ڈالتے رہے، طبعی موت اور حرکت قلب کی بندش سے مرنے والوں کے لواحقین کو زبردستی یا لالچ دے کر موت کا باعث کورونا کو قرار دینے کی کوشش کی گئی، کہیں پر میت کو باوجود منت سماجت اور کوشش کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے تقسیم کی جانے والی امداد میں بھی خرد برد کے قصے زبان زد عام ہوئے، سوشل میڈیا پر کہیں کہیں امداد کے نام پر مستحقین کے ساتھ ہونے والے ڈرامے کا ڈراپ سین کیا گیا۔ دو ٹوک موقف اور بروقت فیصلے نہ ہونے کے سبب تعلیم کا شعبہ بھی کافی متاثر ہوا۔

حکومت سے زیادہ اخلاص اور چابک دستی اہل خیر ، مذھبی تنظیموں اور فلاحی اداروں نے دکھائی، سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ کر بلا تفریق رنگ و نسل اور مذھب و مسلک انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ، اور قرآن کریم کی آیت "فاستبقو الخیرات” کا مصداق بنے، زندہ دل اور ذمہ دار قوم کا ثبوت دیا اور دکھی دلوں پر مرہم رکھ کر دعائیں سمیٹیں۔ ہسپتالوں کو ضروری آلات اور دیگر قیمتی سامان کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے، ماہ مبارک میں نیکی کا اجر دوگنا ہو جاتا ہے اور کیا کہنے جب اپنی محبوب چیز دل پر پتھر رکھ کر رضائے الٰہی کی خاطر خیرات کردی جائے۔ انسان کا سب سے محبوب سرمایہ اسکی متاع اور تجارتی مال ہوتا ہے، اپنے پاکیزہ مال سے زکوۃ اور فطرانہ ادا کیجئے، واٰۃ ذالقربیٰ حقہ والمسکین پر عمل کیجئے اور مشکل کی اس گھڑی میں حقیقی مستحق تک پہنچ کر اس کا سہارا بنیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ اس وقت غریب رشتہ دار، نادار پڑوسی و اہل محلہ، مزدور کار، مدارس عربیہ اور پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ، محنت مزدوری کر کے اپنی تعلیمی فیس بھرنے اور گھر کا خرچہ چلانے والے طالبعلم، اور سب سے بڑھ کر سفید پوش جو ضرورتمند اور مستحق تو ہیں مگر نہ تو ہاتھ پھیلا سکتے ہیں اور نہ کسی قطار میں کھڑے ہو کر امداد کا انتظار کر سکتے ہیں، ہماری زکوۃ، فطرانہ اور صدقات کے حقیقی مستحق ہیں۔

عید الفطر کی آمد آمد ہے، ہمارے ہاں کی روایت ہے کہ عموما لوگ ایسے موقعوں پر مبارکباد دیتے وقت ہاتھ ملاتے اور معانقہ کرتے ہیں، گزارش یہ ہے کہ مفاد عامہ کی خاطر حدیث "لا ضرر و لا ضرار” کو عمل میں لاتے ہوئے بطور حفظ ماتقدم کے اس بار عید کے دنوں میں مصافحہ اور معانقہ سے گریز کریں اور سینے پر ہاتھ رکھ کر ہی سلام، دعائیہ کلمات اور مبارکباد کی روایت پر عمل کیجئے۔ اپنی خوشیوں میں فقرائ، مساکین اور ان کے بچوں کو ضرور شریک کیجئے، عہد کر لیں کہ اس بار جو اپنے اور بچوں کے لئے لیں گے وہی پڑوس کے لاچار، یتیم اور بےیار و مددگار بچوں کے لئے بھی لیں گے کیونکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے "کامل مسلمان وہ ہے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے” اور یہی انسانیت کی بھی معراج ہے۔ آگے بڑھیں انسانیت کا سہارا بنیں، مستحقین کو اپنی خوشیوں میں شریک کر کے اپنا مذھبی اور سماجی فریضہ ادا کیجئے، مایوس اور اداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا سبب بنئے۔ اور دنیا و آخرت کی کامرانیاں سمیٹئے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے