ارتغرل نہ دیکھنے والے”خوش نصیب "

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ، یہ بات مولانا حسین آزاد نےہمیں بچپن میں اس وقت بتائی جب انہیں دُنیا سے رُخصت ہوئے عرصہ بیت چُکا تھا ۔

میں اُن "خوش نصیبوں” میں سے ہوں جنہوں نے ابھی تک ارتغرل کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی ۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے سُنا کہ یہ طویل دورانیے کا کھیل ہے . میں سوچ رہا ہوں کہ وبا کے دِنوں میں اتنے طویل دورانیے کا کھیل دیکھنا کیا ضروری ہے ؟۔ اس لیے میں نے خود کو ان دنوں کچھ انتہائی غیر ضروری کاموں میں اُلجھایا ہوا ہے ۔

لیکن ارتغرل کے حق اور مخالفت میں سوشل میڈیا پر اتنا مواد سامنے آ رہا ہے کہ مجھے اب لگتا ہے کہ اپنی اُفتاد طبع کے باعث شاید یہ کھیل دیکھ ہی لوں.

بیس برس بعد میں نے “ میرے پاس تُم ہو “ اس وجہ سے دیکھا کہ لوگ “جوک در جوک “ رو رہے تھے ۔ میں نے “ میرے پاس تُم ہو “ کی پہلی قسط اس رات دیکھی جب دُنیا اس پر آہ و بُکا اور ماتم کا ماحول قائم کرنے کے بعد اپنی "خراب گاہوں” کی طرف جا چُکی تھی ۔

“میرے پاس تم ہو “ کی تمام اقساط ڈاؤن لوڈ کیں اور اسلام آباد سے استنبول اور استنبول سے نیویارک کے فضائی سفر کے دوران فضا میں دیکھیں ۔ خلیل الرحمان قمر کو میری وجہ سے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کا ڈرامہ “شہرت “ کی ُبلند ترین سطح پر دیکھا گیا ۔ اس ڈرامے کا یہ معراج تھا۔ آخری قسط بھائی فضل اللہ کے ہاں نیو یارک میں دیکھی ۔ آخری قسط دیکھنے کے بعد مجھے مجبوراً ماروی سر مد صاحبہ سے ہی اتفاق کرنا پڑا ۔

خیر میں بات ارتغرل کے بارے میں کر رہا تھا کہ کہیں یہ ڈرامہ مجھے دیکھنا ہی نہ پڑ جائے ۔ وسعت اللہ خان صاحب ایک بار بتا رہے تھے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں بندے کا خواہ مخواہ نماز پڑھنے کا جی چاہتا تھا ۔

دلّی والے سُناتے ہیں کہ دِلّی میں تیز مرچی والی نہاری کھانے کا رواج ہے ۔ مرچی کے اَثر کو ختم کرنے کے لیے لوگ فالودے یا کھیر دف مارتے ہیں ۔

مجھے یہ خوف ہے کہ ارتغرل دیکھنے کے بعد کہیں میرے اندر بھی اسلامی سلطنت کے قیام کا بڑی مشکل سے سُلایا ہوا خواب انگڑائیاں لینا شروع نہ کرے دے، تاہم میں نے اس کا حل سوچ لیا ہے کہ ارتغرل دیکھنے کے فورا بعد اس کا دف مارنے کے لیے گیم آف تھرونز دیکھوں گا ۔ ویسے بھی ڈبلیو ایچ او نے کہہ دیا ہے کہ کورانا کی وبا اتنی جلدی نہیں جائے گی ۔

نثر ، نظم ، کھیل سبھی انسانی زندگی کے لطیف جذبات کا حصہ ہوتے ہیں ۔ زندہ معاشروں میں ان پر بات بھی کی جاتی ہے اور مزید زندہ معاشروں میں مختلف موضوعات پر بکواس کی بھی مکمل اجازت ہوتی ہے ۔

اگر لوگوں کو نیا سوچنے ، نیا بولنے ، نیا پڑھنے اور نیا لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے تو وجود انسانی سے بڑھوتری کا مادہ ختم کر نے کا کوئی طریقہ نکالیں اور سلیقے سے نکالیں ۔

شعیب منصور کی فلم” بُول ” کے دو جملے ابھی تک ذہن سے نہیں اُترتے ۔

“نام تو میرا چوہدری اسحاق ہے لیکن شاہی محلے میں ساقا کنجر کے نام سے مشہور ہوں “

اور دوسرا

“ اگر کِھلا نہیں سکتے تو پھر پیدا کیوں کرتے ہو “ ۔

تو دوستو ، بزرگو ، بھائیو اور ان کی بہنو ، جب بات نہیں سُن سکتے تو خدا کے لیے اپنی فوٹو اسٹیٹ مشینوں کی دُکانیں بند کروا دو کیونکہ یہاں تو جو کاپی نکلتی ہے وہ کہٓیں جا کر اصل سے بہتر ہوتی ہے ۔ ( کہیں پر تین الف برابر مد ہے )

تو بات ہو رہی تھی ارتغرل کی ، وبا کے دن ہیں اور ایسے دن ہیں کہ دن کا پتا ہی نہیں چلتا ۔ بے روزگاری ہے تو تاریخ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ، کونسی تنخواہ آ جانی ہے ۔ ہماری زندگیوں میں کیلنڈر کا ایک ہی مقصد ہے کہ تنخواہ کب آنی ہے ۔ بجلی ، گیس ، انٹرنیٹ کا بل اور گھر کا کرایہ جمع کروانے کی آخری تاریخ کون سی ہے ۔

کب دن میں رات گھس جاتی ہے اور کب اندھیرے کی تہوں سے سورج نکلتا ہے ۔ خدا جانے ، ہمیں اس سے کبھی غرض تھی اور نا ہے ۔ یہ حساب کتاب تمھارے ہیں اور خُدا ہمارا ہے ۔ وبا کے دن ہیں ۔ مسجد تو جاتے نہیں ۔ آج یوں لگا جیسے جمعہ ہے تو ایک تنخواہ دار نے فون پر بتایا کہ نہیں آج جمعرات ہے ۔ گدی ہوتی تو کم ازکم جمعہ ، جمعرات کا حساب تو سیدھا ہوتا ۔

افطاری کے وقت بقول استاد وسعت اللہ خان صاحب کے ہماری دُکھیا ہمیں کچھ بنا کر دے دیتی ہے ۔ آذان سُن کر کھانا کھاتے ہیں اور واپس اپنے بستر مرگ پر آن مرتے ہیں ۔ چائے کا شوق رہتا ہے لیکن جب تک ناصر فرید صاحب چائے تیار کرتے ہیں ، بندہ عالم رویا میں کہیں کا کہیں پہنچ چُکا ہوتا ہے ۔ پھر رات ایک بجے وہی ٹھنڈی چائے گرم کر کے پی لیتا ہوں ۔ چائے گرم کرتے جو موت پڑتی ہے یقین مانیں اصل موت سے وہ کئی گُنا زیادہ اذیت ناک ہے ۔

خیر تو بات ہو رہی تھی ارتغرل کی ، بہت سے لوگ ارتغرل پر بات کر رہے ہیں ۔ مجھے ارتغرل کا ککھ پتا نہیں لیکن میں بھی ارتغرل پر بات کر رہا ہوں ۔ کہیں پڑھا تھا یا کسی نے سُنایا تھا کہ اقبال جرمن شاعر گوئٹے سے متاثر تھے ۔ ان کی شاعری میں گوئٹے کا رنگ اور فکر بھی چھلکتی ہے۔ چھلکنے سے بہت کچھ یاد آجاتا ہے لیکن خیر چِھلکوں اور جملوں پر پھسلنے والی قوم اب کیا چَھلکنا کیا جانے ۔ خوب کہی کہ “ پیاس لگتی ہے سر شام تو "چَھلکتا” ہے بدن “

کسی ادارے نے عرصہ پہلے جرمنی میں اقبال اور گوئٹے کی شاعری کی مناسبت سے ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔ مسئلہ یہ درپیش تھا کہ گوئٹے اور اقبال پر بات کرنے کے لیے جرمن اسکالر تو موجود تھے لیکن کوئی پاکستانی ، ہندُستانی موجود نہ تھا ۔ ایک سردار جی ملے تو اُن سے کہا گیا کہ آپ علامہ اقبال کو جانتے ہیں تو سردار جی نے کہا کہ بالکل جانتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ بہترین ہوگیا ۔ اب آپ نے ہماری تقریب میں اقبال اور گوئٹے کے لحاظ سے اردو میں گفتگو کرنی ہے ۔ سردار جی ایک جانب تو نہایت خوش کہ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے لیکن دوسری جانب پریشان کہ وہ اقبال اور گوئٹے کے بارے میں ناموں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے ۔ خیر سردار جی نے دوستوں سے وسیع تر مشاورت کی ۔ برادری نے کہا کہ پہلی بار ہمیں کسی تقریب میں اتنا بڑا موقع مل رہا ہے ۔ یہ ہماری پَگ کی عزت اور سرداری کا سوال ہے ۔

جس تے سِر دستار نہ ہووے
اُنہوں تے سردار نئی کہندے

خیر کافی سوچ بچار کے بعد ایک حل نکال ہی لیا گیا ۔ تقریب کا آغاز ہوا ۔ ابتدائی کلمات کے بعد سردار جی کو تالیوں کی گونج میں دعوت دی گئی ۔ سردار اسٹیج پر آئے ۔ برادری نے "واہے گُرو جی کا خالصہ ، واہے گُرو جی دی فتح” کے نعرے لگائے ۔ سردار جی نے ہاتھ کے اشارے سے مجمع کو بیٹھے کا کہا ۔ اور اپنی گفتگو کا آغاز کیا ۔

مترو ، ہم انڈیا سے آئے ہیں اور یہاں ہم محنت مزدوری کر رہے ہیں ۔ اقبال اور گوئٹے

انڈیا بہت اچھا مُلک ہے لیکن وہاں غربت بہت زیادہ ہے ۔ اقبال اور گوئٹے

ہم چاہتے ہیں کہ یہاں ہم محنت کریں اور اپنے گھر والوں کے لیے اچھے پیسے بھجوائیں تاکہ ان کی زندگیاں اچھی گزر سکیں ۔ اقبال اور گوئٹے

خیر سردار جی نے پورے دس منٹ اسی طرح تقریر کی کہ ہر دو جملوں کے بعد اقبال اور گوئٹے کہتے ۔ جب وہ اقبال اور گوئٹے کہتے تو تقریب کے تمام شُرکاء تالیاں بجاتے ۔

راوی یہاں آکر خاموش ہوگیا لیکن میں آپ کو یہ بات کیسے نہ بتاؤں کہ اگلے روز اخبارات میں پہلے صفحے پر اقبال اور گوئٹے کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں سردار جی کی تصویر سب سے آگے تھی اور جرمن اسکالرز کی تصویریں ، تصویروں کی صف میں پیچھے تھیں ۔

میں بات کر رہا تھا ارتغرل کے بارے میں اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ میں ارتغرل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور یہ میرا یک طرفہ قُصور نہیں ، میں حلفیہ کہتا ہوں کہ ارتغرل بھی میرے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا ۔ لیکن میری شدید خواہش ہے کہ کاش ارتغرل میں حلیمہ کا کردار نبھانے والی مجھے ضرور جانتی ہو اور وہ صرف اس تعارف تک محدود نہ رہے ۔ ورنہ “تیری ” آنکھوں ” کے سوا ، اس دُنیا میں رکھا کیا ہے “

جب بھی ارتغرل کے بارے میں بات کرتا ہوں کہ بات کہیں سے کہیں نِکل جاتی ہے۔ میں اصل میں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ ارتغرل کے بارے میں ، میں کچھ نہیں جانتا ۔ آصف محمود صاحب کی وال پر دیکھا کہ انہوں نے وبا کے دنوں میں اپنا یوٹیوب چینل بنا لیا ہے اور چینل پر ان کا پہلا وی لاگ بھی ارتغرل کی زندگی پر بنائے گئے کھیل پر اعتراضات کے بارے میں ہے ۔

تو مترو، میں ارتغرل کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔ ایک بات یاد رکھیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اگر ہم سچ نہیں بُول سکتے تو کم از کم جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہیے ۔ اور سچ یہ ہے کہ میں نے ابھی تک ارتغرل نہیں دیکھا، اس لیے میں اس کھیل پر تبصرہ نہیں کر سکتا ۔ البتہ ڈرامے پر جو تبصرے ہو رہے ہیں ۔ میں بھی انہیں پڑھ رہا ہوں اور میرا بھی ذہن بن رہا ہے جس طرح تاریخ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہم نے ماضی کے متعلق اپنا ذہن بنایا ہوا ہے . بس یہی کل حقیقت ہے کہ ہمارے موقف ایسے ہی بنتے ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے