امریکا میں سفید فام انتہا پسندی!

امریکہ میں سفید فام انتہا پسندی!

امریکہ میں سیاہ فام شخص کے قتل کیخلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، معلوم نہیں کتنی ریاستیں اس کی زد میں آئیگی، فی الحال دس ریاستیوں میں پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو طلب کیا گیا ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کے لاکھوں لوگ صرف اس وجہ سے سڑکوں پر آئے،روڈ کو بلاک کیا،اور نظام زندگی معطل کی، کیونکہ ان ملک کا ایک سیاہ فام پولیس نے قتل کیا، یہ احتجاج کرنیوالے بیشتر سفید فام امریکی ہیں، لیکن بہر حال آج یہ موضوع بحث نہیں،

امریکی ریاست اور پالیسی ساز ادارے نسلی برتری اور عصبیت پر مبنی سیاست اور اس کے بھیانک نتائج پر کماحقہ توجہ نہیں دی، بلکہ انہوں نے مسلم انتہا پسندی پر جتنا فوکس کیا اس کا عشر عشیر بھی سفید پام انتہا پسندی پر نہیں کیا، سی وی ای کے مختلف پروگرامز میں جہاں مسلم معاشروں میں فرقہ واریت کے حوالے سے آگہی لائی گئی وہاں امریکہ کو سافٹ پاورز کے ذریعے اپنے ڈپلومیٹک مشنز میں کامیابی ہوئی،

امریکہ کے کئی مسلم سکالرز نے سی وی ای فنڈنگ پر تنقید بھی کی، جسمیں حمزہ یوسف اور پروفیسر ابراہیم موسی شامل ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک دہشتگری اور انتہا پسندی صرف مذہبی نہیں بلکہ غیر مذہبی بھی ہوسکتی ہیں،

گزشتہ سال فرانس، اٹلی ،یوکے، کینیڈا،پورپی ممالک، ساؤتھ ایشیا کے موثر مذہبی رہنماوں کا ایک ڈیلی گیشن کیساتھ امریکہ جانے کا اتفاق ہوا،، ہمیں امریکہ میں جاری مختلف یونیورسٹیز سمیت سول سوسایٹی کے پروگرامات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، مسلمان طلبا کردار بہت ہی متاثر کن تھا، خصوصا یونیورسٹی آف شکاگو میں نسلی امتیاز اور اسلامو فوبیا کیخلاف کرنیوالے تنظیم CAIR کا، اس وفد کے تمام وزٹس مکمل ہونے کے بعد شکاگو میں ہماری اختتامی میٹنگ ہوئی، جس میں تمام شرکا نے اپنے تاثرات کیساتھ ساتھ پروگرام میں موجود خامیوں کی نشاندھی کی، انہوں نے مختلف تجاویز مانگے،

راقم نے اپنی تجویز میں کہا کہ ایسے ایکسچینج پروگرامز میں ہمیں ہر طبقے، ہر مکتبہ فکر،ہر مذہب کے نمائندے سے بات چیت کا موقع ملا، جس میں کئی تنظیمیں اور ادارے ایسے بھی تھی جو امریکی حکومت پر بھرپور تنقید کرتے رہے، مگر اس پروگرام میں ایک طبقے سے ہم نہیں مل پائے، اور وہ سفید فام اور ان کے بعض انتہا پسند گروہ!

میری ذاتی دلچسپی اس میں ہے کہ
ان کے نظریات کیا ہیں؟ وہ تشدد کی طرف کیوں جاتے ہیں؟
غریب یا غیر تعلیم بھی نہیں؟ ریاست بھی سیکولر ہے اور مذہبی آزادی کو آئینی و قانونی حیثیت حاصل ہے؟ مگر پھر کونسے اسباب و وجوہات ہیں ؟

اس میٹنگ کو امریکی حکومت کی ایک سیاہ فام ڈائریکٹر چئیر کررہی تھی، وہ معمولی سکتے کے بعد کہنے لگی!

ہم نے ایک آدھ بار کوشش کی، مگر وہ آپ اور ہم سے ملنا نہیں چاہتے”,
اس جواب سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاملات کتنے گھمبیر ہیں، جبکہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ امریکی صدر اور ریپبلیکن اس عصبیت کو اپنی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے آرہے ہیں،

امریکہ کے ایک نامور پروفیسر نے مجھے بتایا کہ یہاں کے بعض یونیورسٹیز میں یہ نسلی امتیاز اور سفید فام برتری کو باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اور کچھ پروفیسر اس کی مکمل تبلیغ کررہے ہیں،

راقم نے سوال کیا کہ کیا سفید فارم برتری کے پیچے کوئی مذہبی بیانیہ بھی ہے ؟ یا ایک سیاسی فکر کے طور پڑھایا جارہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس ساری تحریک کے پیچے ایک مذہبی فکر بھی ہے جو چند کیتھولک اداروں سے فروغ پارہا ہے،
اب وقت آگیا ہے کہ امریکی پالیسی ساز اداروں کو اپنے داخلہ مسائل پر فوکس کرنا ہوگا، اگر انہوں نے ماضی کی طرح عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تو اس کے نتائج مزید خوفناک ہونگے،
امریکہ نے دنیا بھر میں Opinion makers پر بلین ڈالرز خرچ کئے، ان کو engage کرنے سے وہ بہت جلد پالیسی بناسکتی ہے،بشرطیکہ اگر ان کی ریاست سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو اس بحران سے نکل سکتی ہے!

مجھے ابھی تک سمجھنے میں غلطی ہورہی ہے کہ کسی بھی کانفلیکٹ ( تنازعے) کو پرتشدد اور حادثہ وقوع ہونے کے بعد ہم کیوں سوچنا شروع کر دیتے ہیں، اگر ایسے تنازعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے پہلے ہم اس کا Analysis کرتے اور پھر بروقت تدارک ، تو حالات یہاں تک نہیں پہنچ سکتے،
میرا خیال تھا کہ یہ پاکستان سمیت ہندوستان اور مسلم دنیا کا مزاج ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں ردعمل میں بناتے ہیں، اور طویل المیعاد منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں، مگر اب اگر یہی رویہ امریکہ بھی اختیار کرے تو باقی دنیا سے کوئی خیر کی توقع نہیں،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے