“سیاستدان چور ہیں”

‏ہماری نسل نے جس عہد میں ہوش سنبھالا وہاں سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ ” سیاستدان چور ہیں ” اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے ”  جمہوریت تو نظام ہی چوری بچانے کا ہے ۔۔۔ سیاستدانوں کا پاکستان میں کوئی سٹیک نہیں ہے ۔۔انکے بیوی بچے باہر تعلیم حاصل کرتے اور زندگیاں گزارتے ہیں ۔۔ بس حکمرانی کے شوق میں پاکستان تشریف لاتے ہیں

‏مشرف کے "روشن "دور  کا اختتام عوام کو دن میں تارے دکھا گیا ۔۔ بم دھماکے ، لوڈ شیڈنگ ، کمزور ترین خارجہ پالیسی ، معیشت کی تباہی کے رازوں سے پردہ اٹھا تو پتا چلا کہ اس ملک میں اصل ڈاکے کون مارتا ہے ۔۔ ایک غیر آئینی آمریت کو بچانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو کمپرومائز کیے جاتے ہیں انکا خمیازہ کتنی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔۔

‏لیکن کھلاڑی کبھی ہار نہیں مانتے ۔۔ اپنی باقیات سے جوڑ توڑ کر کوئی نا کوئی مہرہ کھڑا ضرور کرتے ہیں ۔۔ جو انکی یاد دلاتا رہے اور دائروں کا یہ سفر کبھی ختم نا ہوسکے

‏خیر 2013 کے انتخابات میں ان ” مہروں” کو مطلوبہ مقام تک نا پہنچایا جا سکا ۔۔ ن لیگ اقتدار میں پہنچی تو مولانا طارق جمیل والا ” اجڑا گلشن ” اسوقت واقعی میں  منتظر تھا ۔۔ میاں نواز شریف اور ن لیگ کے کیا خلاف کیا سازشیں ہوئیں ۔۔ کانٹوں کا تاج سر پہ رکھے کیسے ان مسائل سے نبردآزما ہوئے ۔۔ یہ کہانی ہم سب جانتے ہیں

‏”کھلاڑیوں "کو احساس تھا کہ اگر عوام تک یہ پیغام پہنچ گیا ۔۔یہ بات انکے دماغوں میں گھر کر گئی کہ اس ملک کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے ۔۔ سیاست دان ہی انکے حقیقی لیڈر اور خیر خواہ ہیں تو یہ انکے کھیل کا اختتام ہو گا

‏پھر شروع ہوتا ہے وہ گندا کھیل جو اس ملک کے ہر عوامی لیڈر اور جماعت کے ساتھ پچھلے ستر سالوں سے جاری ہے ۔۔ کافر ، غدار اور چور کی بازگشت اور فتوے ۔۔ جس کا جواب ” ووٹ کو عزت دو ” اور ” سویلین سپریمیسی” کے نعرے کیساتھ دیا گیا ۔۔ جسے عوام میں پذیرائی ملی ۔۔ تمام تر طاقت اور حربوں کو آزمانے کے باوجود ڈیڈھ کروڑ ووٹوں کا ملنا اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ” شعور ” تو پھیل رہا ہے ۔۔ جو نالائق مہروں کی کارکردگی سے مزید اجاگر ہوگا ۔۔

‏میاں نواز شریف کی لندن میں اپنی پوتیوں کے ساتھ چھپ کر بنائی گئی تصویریں  وائرل ہونے  پرعوامی جوش وخروش جہاں کھلاڑیوں کے لیے پریشان کن ہے ۔۔وہاں حکومتی ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ خوف کتنا زیادہ ہے ۔۔ جس شخصیت کے بارے میں بار بار دعوے کیے جاتے ہیں کہ انکی سیاست ختم ہو چکی ہے انکی ایک تصویر پر تبصروں کے لیے کئی ترجمان کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔۔ کبھی بیماری کو جھوٹ کہتے ہیں ۔۔ کبھی چائے کافی کپڑوں جوتوں پر طنز کرتے ہیں

‏اس ملک میں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے زریعے ایک ایسی فضا بنائی گئی ہے جس میں قومی لیڈران کے چلنے پھرنے ، کھانے پینے ، سانس لینے تک اعتراض کیا جاتا ہے ۔۔ وہ بھی گالم گلوچ کے ساتھ

‏انکے خیال میں ایک بیمار شخص نا ہی تو اپنے خاندان کے ساتھ کسی پارک میں بیٹھ سکتا ہے ۔۔ نا اچھے کپڑے پہن سکتا ہے ۔۔۔ اور نا ہی گھوم پھر سکتا ہے ۔۔ انکے مطابق صرف ” وینٹی لیٹر” پہ پڑا شخص ہی بیمار ہونے کی تعریف پر پورا اترتا ہے

‏یہ وہ بیمار ذہنیت ہے جس نے اس ملک میں وضع داری ، انسانیت ، اخلاقیات ، روایات سب کے تقدس کو پامال کر دیا ہے ۔۔ کیا ان ” کھلاڑیوں” نے کبھی سوچا کہ جب یہ طوفان بدتمیزی انکی طرف پلٹے گا تو وہ اپنے انجام سے کیسے بچیں گے ۔؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے