ایک ہلاکت ، ایک نوید

ہمیں نہیں پتا تھا کہ برطانیہ میں آج تک اُن لوگوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو ساتویں صدی میں افریقہ سے غلاموں کو بھیڑ بکریوں کو طرح جہاز بھر بھر کر لاتے تھے اور انہیں برطانیہ اورامریکہ کے بازاروں میں فروخت کرکے دولت کماتے تھے یا ان سے وہ کام لیتے تھے جو مویشیوں اور چوپایوں سے لیا جاتا تھا۔ سیاہ فام لاغر اور ناتواں غلاموں کو اپنے بوٹ تلے کچل کر رکھنے والوں کی یادگاروں کو کیسے اہتمام سے رکھا جاتا ہے، یہ بھید پچھلے دنوں اس وقت کھلا جب ایک مشتعل مجمع نے برطانیہ کے ساحلی شہر برسٹل میں بڑی شان سے کھڑے ہوئے ایک سفید فام شخص کا مجسمہ نہایت حقارت سے کھینچ کر گرایا ، اس کے اوپر چڑھ کر اس کی توہین کی اور پھر اسی نفرت کے انداز میں اسے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور سمندر میں ڈبو دیا۔

یہ مجسمہ شہر کے بہت ہی بڑے مالدار ایڈورڈ کولسٹن کا تھا جو اپنے وقت کا غلاموں کا بڑا تاجر تھا اور جو افریقہ سے غریب سیاہ فاموں کو جہازوں میں بھر بھر کر لاتا تھا اور ان کو فروخت کرکے دولت کے انبار لگاتا تھا۔ یہی نہیں، سمندری سفر کے دوران بے چارے افریقی تکلیف دہ حالات میں مرتے جاتے تھے اور جہاز کاعملہ انہیں سمندر میں پھینکتا جاتا تھا۔ کولسٹن نے شہر برسٹل میں اپنی یادگار کے طور پر بڑی تعمیرات کیں اور آخر میں شہر والوں نے اپنی عقیدت کے تحفے کے طور پر اس کا شاندار مجسمہ نصب کیا۔ ہمیں یہ سب معلوم نہ تھا۔ وہ تو بھلا ہوا امریکہ میں پولیس والے کے گھٹنے کے نیچے دب کر ہلاک ہونے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کا جس کی بے رحمانہ موت سے پہلے خود امریکہ میں اور پھر دنیا کے مختلف علاقوں میں احتجاج کی ایسی لہر اٹھی جس نے حکام کی نیندیں حرام کر دیں۔ برطانیہ میں تو جوان لڑکوں لڑکیوں کا اشتعال انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اس وقت ان کا نعرہ تھا کہ پورے برطانیہ میں نسل پرستوں اور غلاموں کی تجارت کرنے والوں کے مجسمے اور یادگاریں گرائی جائیں۔

نوجوانوں کے اس نعرے کے بعد اندازہ ہوا کہ برطانوی تاریخ میں تو نسل پرستوں اور استعمار پرستوں کی فہرست بڑی لمبی ہے جن میں تاریخی وزیراعظم ولیم گلیڈسٹن اور اس سے بھی بڑے سیاستداں ونسٹن چرچل کے نام بھی شامل ہیں۔ نوجوانوں نے ان سب کے مجسموں پر سیاہی پھیری اور انہیں گرانے کا پُرزور مطالبہ کیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ مجسمے ہٹائے جا رہے ہیں اور لیور پول کی یونیورسٹی کا نام جو ولیم گلیڈسٹن کے نام پر ہے، تبدیل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، کیونکہ نوجوانوں نے اعلان کر دیا ہے کہ سامراج کا پرچم بلند کرنے والوں کا برطانیہ کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں غلاموں کی خرید و فروخت ختم کرنے کے مخالف تھے اور طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے ایسا کوئی قانون بننے ہی نہیں دیتے تھے جس سے یہ وحشیانہ قانون منسوخ ہو۔ یہ سلسلہ اتنا طول کھینچ گیا کہ آخر کہیں سنہ اٹھارہ سو تیس میں غلامی کے خاتمے کی نوبت آئی۔

پولیس کے ہاتھوں مرنے والے جارج فلائیڈ کو بے شمار لوگوں نے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان اس کی ماں کے پہلو میں دفن کیا۔ اس کے ساتھ ہی کم سے کم ایک ریاست میں تو کوئی بات لگی لپٹی رکھے بغیر پُرزور مطالبہ ہورہا ہے کہ علاقے میں پولیس کے موجودہ ادارے کو سرے ہی سے ختم کر کے، نئی پولیس فورس قائم کی جائے جس میں ظالمانہ رویے کا شائبہ تک نہ ہو۔ لوگوں کا ایک ہی نعرہ ہے، سیاہ فاموں کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ سفید فام بھی یہ نعرہ لگا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انصاف کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، اب وقت بدل چکا ہے۔

اس بات پر میں خود کو کچھ سوچنے پر مجبور پاتا ہوں وہ یہ کہ دنیا ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی نہیں، ایک ہے۔ خاص طور پر اس کورونا وائرس نے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ دنیا ایک اکائی ہے اور اس پورے کرہ ارض پر ایک ہی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔ ایک علاقے میں ہونے والی ناانصافی پر بہت سے علاقوں میں ذہنی انقلاب برپا ہو تو کوئی ایسی صورتحال پیدا ہونا قطعی ممکن ہے، جب کوئی ایسا واقعہ ہو جس کی پوری دنیا میں، تمام سر زمینوں پر، سارے ہی ساحلوں پر ایک ساتھ ایک تحریک اٹھے، جس میں یہی پُرجوش اور ہوشمند لڑکے لڑکیاں آگے آگے ہوں، یوں اٹھنے والی لہر کیا نیل کا ساحل اور کیا خاکِ کاشغر، ہر جگہ سوئے ہوئے انسان کو جگا دے اور ایک آفاقی نعرہ بلند ہو، انصاف کا، مساوات کا، حق پرستی کا اور یکجہتی کا۔ ایسی فضا قائم ہو کہ ساری دنیا سر جوڑ کر بیٹھے اور گلی گلی کوچے کوچے بلند ہونے والے نعرے کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ ہم کہا کرتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے، نہیں وقت نہیں، دنیا بدلے، اور ایسی بدلے کہ پہچانی نہ جائے۔ ناانصافی کی گرد چھٹے اور اس میں سے ایک نئی دنیا نمودار ہو۔ روشن روشن، اجلی اجلی، حق و صداقت میں دھلی ہوئی دنیا۔ انصاف اور دیانت کی کرنوں میں نہائی چمکتی دنیا۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت نے اس کی جھلک دکھا دی ہے، ذرا سوچئے ایک فرسودہ نظام کو سرے سے مٹا کر نیا نظام لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایک شخص کی موت نے ایک امکان کو زندگی عطا کی ہے، یہ امکان اپنا وقت لے گا لیکن حقیقت کے روپ میں ڈھل کر رہے گا، ہم نہ دیکھیں گے مگر دنیا تو دیکھے گی۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے