چین بھارت سرحدی تنازعہ اور امریکہ

ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کووڈ۱۹کو قابو کرنے میں مصروف ہے دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے اور ایٹمی مسلح ممالک – بھارت اور چین کے درمیان طویل عرصے سے چل رہے سرحدی تنازعے میں حدت آگئی ہے ۔متنازعہ ہمالیائی سرحدی علاقے میں حالیہ ہفتوں کے دوران بھارتی اور چینی فوج کے مابین نوک جھونک ہوئی ہے جس میں مکوں کا تبادلہ بھی شامل ہے ۔ اس نے امریکہ کی بے چینی میں بھی اضافہ کردیا ہے ، تاہم صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو دونوں ممالک نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ اس وقت جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑی محاذ آرائی کے امکانات بہت کم ہیں تاہم اس طرح کے واقعات دونوں ممالک کے درمیان خلیج کومزید وسیع اور گہرا کرسکتے ہیں ۔
حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات عمومی طور پر مستحکم رہے ہیں ، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ کچھ پیچیدگیاں بھی پیداہوئی ہیں کیونکہ ایک طرف چین بھارت کے اعلی تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے امریکہ کی حیثیت کو چیلنج کررہا ہے تو دوسری طرف بھارت کی ہندوقوم پرست حکومت کو خطے میں چین کی عسکری اور معاشی ترقی کھٹک رہی ہے اور اس نقطہ پر امریکی حکومت بھی بھارتی حکومت کی ہمنواہے ۔

ایک زمانے تک چین اور بھارت معاشی اعتبارسے ہم پلہ تھے۔ تاہم گزشتہ چالیس سالوں کے دوران حا صل کی گئی ہمہ گیرترقی بھارت کو ہضم نہیں ہورہی ، یا درہے اس وقت چین کا جی ڈی پی بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

حالیہ سرحدی تنازعہ اسی مقام پر پیدا ہواہے جہاں ۱۹۶۲ میں بھارت کو حزیمت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور چین کے تعلقات انتہائی نچلے درجے پر ہیں ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو چینی ماہرین شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ چین کے عروج سے خائف واشنگٹن کوشش کررہاہے کہ بھارت کو چین کے ہمسایہ ممالک کے اتحاد کی طرف کھینچ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرلے۔

چین کے معروف اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں لکھاہے کہ واشنگٹن چین بھارت تنارعہ سے فائدہ اٹھانے کا منتظر ہے اور جب بھی بھارت اور چین کے درمیان تنازعہ پیدا ہوتاہے امریکہ اس کو ہو ا دینے کی کوشش کرتاہے امریکہ کی یہ کوشش رہتی ہے کہ بھارت کو چین کیخلاف کھڑا کردے ۔ تاہم امریکی خواہش کے برعکس بھارت اور چین نے سفارتی اورعسکری چینلز کے ذریعے درجہ حرارت کم کرنے کوشش کی ہے۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے سرحدی علاقوں کی صورتحال کو پرامن طور پر حل کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس کی بنیاد دونوں ممالک کی اعلی قیادت کے درمیان وہ معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں باہمی تعلقات کی مجموعی ترقی کے لئے امن و استحکام ضروری ہے ۔

تاہم تندو تیز سوشل میڈیا کی موجودگی اور بھارت میں ہندوقوم پرست جماعت کے اقتدار کے ہوتے ہوئے سرحدی تنازعہ کشیدگی اختیار کرسکتاہے۔اخری مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان ۲۰۱۷ میں سرحدی تناو میں اضافہ ہواتھا۔اس وقت کووڈ ۱۹ کی وجہ سے بھی دونوں ممالک کےدرمیان تناو موجودہے کیونکہ بھارت بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہے جو کووڈ ۱۹ کے پھیلاو کی زمہ داری چین پر ڈال رہے ہیں۔

اس وقت ہزاروں چینی اور ہندوستانی فوجیوں کی ایک دوسرے سے محض چند سو گز کے فاصلے پر ڈیرے ڈالنے کی اطلاع ہے اور دونون کے درمیان گرماگرمی کی اطلاعات بھی آچکی ہیں ۔

اس حوالے سے امریکی تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اس وقت چین جارحانہ موڈ میں ہے ، جو 1962 کی یاد دلاتاہے اس وقت ماؤ زے تنگ بھارت سے خوش نہیں تھا اور پیغام دینا چاہتاتھا کہ چین ضرورت پڑنے پرطاقت کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کے عمل میں بھارت کے ساتھ ساتھ دوسرون کیلئے یکساں پیغام ہے کہ چین اپنی سلامتی سے متعلق متعدد امور سے بیک وقت نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتاہے ۔ امریکی تجزیہ کارون کے مطابق چین نے کووڈ ۱۹ سے متعلق خود پر ہونے والی تنقید کے تناظر میں حالیہ مہینوں میں جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کی ہے اس کی دوسری وجہ امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات بھی ہیں ۔بھارت کی سرحد پرحفظ ماتقدم کا اقدام چینی خارجہ پالیسی کے موجودہ رجحان کے مطابق ہے اورگزشتہ کچھ عرصے کےدوران امریکہ اور ہندوستان کی بڑھتی ہوئی شراکت داری اور چین مخالف مشترکہ محاذ کیلٗے ایک واضح پیغام ہے۔

تاہم امریکی صد ٹرمپ کا کہناہے کہ واشنگٹن مدد کرنے میں خوش ہوگا۔ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہم نے ہندوستان اور چین دونوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ ، ان کے بڑھتے ہوئے سرحدی تنازعہ میں ثالثی کے لئے تیار ہے۔ تاہم نہ تو بھارت اور نہ چین نے اس پیشکش کو قبول کیاہے حالانکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ ایک فون کال میں اس معاملے پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے ، اور بھارتی میڈیا رپورٹس میں نئی دہلی کے عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ واشنگٹن اس موقع پر موجود رہے۔ دوسری طرف چینی وزارت خارجہ نے واضح کردیا ہے کہ کسی بھی تیسرے فریق کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق چین اور ہندوستان کے مابین رابطے کے ٹھوس طریقہ کار اور ذرائع موجود ہیں اوردونوں فریق باہمی بات چیت اور مشاورت کے ذریعے متعلقہ امور کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

بعض تجزیہ کار موجودہ پیش رفت کو پاک بھارت کشیدگی اور پاک چین دوستی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور چین کے عمل کو پاک بھارت سرحدی تناو کے پس منظر میں چین کی طرف سے پاکستان کی حمایت کے مترادف قرار دے رہے ہیں ۔

یاد رہے بھارت مذکورہ علاقے کو ایک فضائی پٹی سے منسلک کرنے کے مقصد کے تحت وادی گالان میں اپنی اسٹریٹجک سڑک بنا رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے گزشتہ سال اگست میں بھارت نے لداخ کومقبوضہ کشمیر سے یکطرفہ طورپرعلیحدہ کرکے وفاقی علاقہ قرار دیا تھا ۔ چین نے اس اقدام کی شدید مذمت کی تھی اور اس معاملے کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے