بریس پروگرام کی بدولت دیہی خواتین کا لکھنے پڑھنے کا شوق: اب خواب نہیں حقیقت

[pullquote](ضلع ژوب سے تعلق رکھنے والی روزینہ بی بی کی کہانی)[/pullquote]

یوں تو بلوچستان کا نام سنتے ہی ذہن میں بہت سے خیالات آتے ہیں، مگر جو سب سے نمایاں عکس ابھرتا ہے، وہ دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑوں، سبزہ زاروں، سیب اور انگور کے باغوں اور کوئلے کی کانوں کا ہے۔ بلاشبہ سرزمین بلوچستان، اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آپ کا استقبال کرتی ہے۔ مگر یہ تمام عکس اس پانی کے بلبلے کی طرح ثابت ہوتے ہیں، جو ایک لمحے کے لیے کسی تالاب میں ابھرتا ہے اور پھر ہوا ہو جاتا ہے۔

صوبہ بلوچستان میں بھی جہاں قدرتی مناظر انتہائی حسین ہیں، وہیں اس سر زمین پہ رہنے والوں کی زندگی اتنی ہی ویران ہے۔ آ پ کوئٹہ شہر سے نکل کر بلوچستان کے کسی بھی دوسرے شہر کا رخ کر لیں۔ آپ کو ہر شہر میں مقامی لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نظر آئیں گے۔ یہاں کے باسیوں کے چہرے، مسکراہٹوں سے سجے ہوں گے، مگر ان کی اداس آنکھوں میں آپ کو خوشحالی کے فقط خواب نظر آئیں گے۔

ان ساری محرومیوں کے باوجود، یہاں کے باسی پر عزم اور با حوصلہ ہیں اورحکومت بلوچستان و یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والے بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کیمونٹی ایمپاورمنٹ (BRACE)پروگرام کے تحت، اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے میں کوشاں ہیں۔ بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام، نیشیل رورل سپورٹ پروگرام اور رورل سپورٹ پروگرامز نیٹ ورک (RSPN)کے تحت چلنے والے اس پانچ سالہ دیہی ترقیاتی پروگرام کا ایک نمایاں پہلو، بلوچستان کی خواتین کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں بریس پروگرام کے تحت مختلف اقدامات ترتیب دئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اقدام بلوچستان کی خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ، ان میں بنیادی تعلیمی صلاحیتوں کے فروغ او ر پڑھنے لکھنے کی مہارتوں کومزید بڑھانا ہے۔

اس مقصد کے لیے بریسBRACE) (پروگرام نے گاؤ ں اور یونین کونسل کی سطح پر تعلیم بالغاں کے سنٹرز قائم کیے ہیں، جنہیں Adult Litercay and Numeracy Skills Centres کا نام دیا گیا ہے۔ جہاں متعلقہ علاقے کی خواتین کو پڑھنے لکھنے کی بنیادی مہارتوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ سنٹروں پر داخلہ لینے والی خواتین کو سلائی کڑھائی، بیوٹی پارلر اور دیگر امور کی ٹرینگ بھی دی جاتی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف خواتین کو پڑھنا لکھنا آیا ہے، بلکہ ان میں خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی لگن بھی پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر مہارتوں کی وجہ سے خواتین کو گھریلو سطح پر روزگار کا ہنر بھی میسر آیا ہے۔ ان سنٹررز پر آنے والی خواتین میں سے اکثر یت شادی شدہ خواتین کی ہے۔ انہی میں سے ایک روزینہ بی بی ہیں جن کا تعلق ضلع ژوب سے ہے جو تعلیم بالغاں کے اس سنٹر میں داخلہ لینے کے بعد اپنے خیالا ت کا اظہار کچھ یوں کر رہی ہیں۔

مجھے شروع سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے گاوں میں، جو کہ شہر سے کافی دور ہے کوئی سکول نہیں تھا۔ میں نے اپنے والد سے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ میرے والد خود میٹرک پاس تھے، مگر وہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ لہذا، میں نے اپنی دنیاوی تعلیم کی خواہش کا اظہار کبھی ان کے سامنے نہیں کیا۔ لیکن شادی کے بعد جب میں شہر منتقل ہوئی تویہاں تعلیمی سہولیات دیکھنے کے بعد مجھ میں پڑھائی کی لگن پھر سے جاگ اٹھی۔ مگر سسرال کے ڈر سے اور اس خوف سے کہ میرے شوہر ناراض نہ ہو جائیں، میں نے کبھی بھی اس خواہش کا برملا اظہا ر نہیں کیا۔

میرے جیٹھ کے بچے سکول میں پڑھتے تھے، وہ جب بھی سکول کا کام کرنے بیٹھتے تو میں ان کے پاس بیٹھ جاتی، اور اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ بچے اکثر میری اس بات سے نالاں ہوتے کہ میں بار بار کیوں ان سے پوچھتی ہوں کہ وہ کیا کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے کیا میں ان کی استانی ہوں جو ان کے سکول کے کام کو اتنے غور سے دیکھتی ہوں۔ وقت گذرتا گیا، اور اس دوران میں خود دو بچوں کی ماں بن گئی جو کہ اب سکول جاتے ہیں۔ زندگی مصروف ہو گئی اور میرے اندر تعلیم حاصل کرنے کی لگن بھی کہیں ماند پڑ گئی۔

آج سے چھ ماہ پہلے میرے گھر کے دروازے پر ایک دستک نے میرے اندر تعلیم کی خواہش کو دوبارہ سے زندہ کر دیا۔ یہ بریس پروگرام کی کیمونٹی ریسورس پرسن شمع باجی تھیں جو ہمارے گھر آئیں اور ہمیں بتایا کہ یورپی یونین کے تعاون سے بی آر ایس پی ہمارے گھر کے پاس تعلیم بالغاں کا سنٹر کھولنے جا رہی ہے، جہاں خواتین کو پڑھائی لکھائی کا کورس کرایا جائے گا۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور مجھے لگا کہ شائد اب میں بھی اپنا نام خود لکھنے کا خواب پورا کر پاؤں گی۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ اپنے شوہر سے اجازت لینے کا تھا۔ میں نے اپنی مشکل شمع باجی سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ وہ خود میرے شوہر سے بات کریں گی۔

جب دوسرے دن وہ دوبارہ میرے گھر آئیں اور میرے شوہر کو بتایا کہ کس طرح میں اس سنٹر میں پڑھنے لکھنے کے علاوہ ہنر بھی سیکھ سکتی تھی اور سلائی کڑھائی کے ذریعے گھر کی کمائی میں ان کا ہاتھ بٹا سکتی تھی۔ میرے شوہر یہ سن کر ہنسنے لگے کہ اس عمر میں جب ہمارے بچے سکول جا رہے ہیں، یہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی۔ مگر شمع باجی نے انہیں سمجھایا کہ بھائی پڑھائی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اور اس سنٹر پہ جانے سے مجھے اتنا پڑھنا لکھنا آ جائے گا کہ میں دوائیوں پہ لکھی گئی ہدایات پڑھ سکوں گی، گھر کا حساب کتاب خود کر سکوں گی، رسائل اور اخباروں میں لکھے گئے صحت و صفائی کے متعلق مختلف ہدایات اور بیماریوں سے بچاو کے طریقے پڑھ سکوں گی جبکہ مختلف کھانے بنانے کی تراکیب اور سب سے بڑھ کے دینی تعلیم کے حوالے سے مختلف احادیث اور دیگر روزمرہ کے مسائل کے حوالے سے دینی احکام بھی جان سکوں گی۔

بس پھر جب میرے شوہر نے یہ باتیں سنیں تو انہوں نے مجھے خوشی خوشی سنٹر میں جانے کی اجازت دے دی۔ اب الحمداللہ گذشتہ چھ ماہ سے میں یہاں آ رہی ہوں۔

روزینہ نے بتایا کہ ان چھ ماہ میں اس نے نہ صرف یہ کہ پڑھنا بلکہ لکھنا بھی سیکھ لیا ہے اور اب وہ اردو میں لکھی ہوئی بیشتر چیزوں کے نام بآسانی پڑھ سکتی ہیں۔ اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ جب وہ گھر جا کر سنٹر کی طرف سے دیا ہوا پڑھنے لکھنے کا کام کرتی ہیں تو اس کے بچے بہت ہنستے ہیں کہ ان ماں سکول کا کام کر رہی ہے۔ روزینہ نے مزید بتایا کہ لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سلائی کڑھائی کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اور اب وہ گھر میں بچوں کے سلائی کے کام خود کر لیتی ہے۔ روزینہ کے مطابق اسے اب چونکہ بنیادی حساب کتاب کرنا آگیا ہے، لہذا وہ اچھے طریقے سے پیسوں کا حساب کر پاتی ہے۔ اس نے ہنستے ہوے بتایا کہ میرا شوہر کہتا ہے کہ بریس پروگرام والوں نے تمھیں میرے اوپر چوکیدار لگا دیا ہے کیونکہ جب سے تم نے گنتی وغیرہ سیکھی ہے، مجھ سے پائی پائی کا حساب لیتی ہو۔

روزینہ کی طرح سنٹر پر تیس اور خواتین بھی ہیں جو پڑھنے لکھنے اور ہنر سیکھنے آتی ہیں۔ اب تک بریس پروگرام کے تحت بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (BRSP) کی طرف سے 8اضلاع بشمول ژوب، لورالائی، پشین، دکی، جھل مگسی، خضدار، واشک اور قلعہ عبداللہ میں قائم کیے جانے والے ان51سنٹرزمیں مجموعی طور پر 5392خواتین فارغ التحصیل ہو چکی ہیں۔ داخلہ لینے والی ان خواتین کی تعداد اور پڑھائی میں ان کا شوق دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگربلوچستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی ہماری خواتین کو تعلیم و تربیت اور ہنر کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں تو نہ صرف یہ کہ ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، بلکہ خواتین کو با اختیار بنا کر، گھریلو سطح پر غربت میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔

یورپی یونین کے تعاون سے بلوچستان کے نو اضلاع میں چلنے والے بریس پروگرام کا ایک نمایاں پہلو اور منشور بھی یہی ہے کہ گھر یلو سطح پہ غربت ختم کی جائے اور خواتین سمیت، مقامی دیہی آبادی کو با اختیار بنایا جائے، تا کہ وہ ترقی کے سفر میں حکومتی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوے، اپنے گھر، دیہات، علاقے، اضلاع اور صوبے کو خوش حالی و ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے