دوا بن گئی، منافع خور تیار ہو جائیں

اگر ماہرین کی رائے درست ہے اور ان کی تحقیق صحیح ہوئی ہے تو آج کی بڑی خبر یہ ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی جان بچانا ممکن ہو گیا ہے۔ برطانیہ میں ایک بڑی دواساز کمپنی اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے مل کر ڈیکسامیتھاسن نامی جس دوا کو آزمانے کے لیے خون پسینہ ایک کیا تھا، اب یہ طے ہے کہ وہ دوا کورونا کا علاج ثابت ہوئی ہے۔ یہ دوا بیس ہزار مریضوں کو دی گئی جو اسپتالوں میں زیر علاج تھے۔ دوا کے استعمال کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی ہوئی۔ یہ دوا بہت سستی ہے اور دنیا بھر میں دستیاب ہے مگر اس کے لیے یہ بات سختی سے کہی گئی ہے کہ مریض کو یہ دوا اسپتال میں ڈاکٹروں کی نگرانی میں دی جائے، یہ نہیں کہ کیمسٹ کی دکان سے خرید کر استعمال شروع کردیں۔

اب دھیان پاکستان کی طرف جاتا ہے جہاں اگر یہ طے ہو گیا کہ یہی کورونا کا موثر علاج ہے تو پھر غضب کی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہوگی، دوا مارکیٹ سے غائب ہوگی اور اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ یہ ہمارے معاشرے کا روز کا قصہ ہے۔ کہیں پڑول کا ذخیرہ ہورہا ہے، کہیں شکر کا اور کہیں گیہوں کا۔ لوگ دلیر ہو گئے ہیں، بےخوف ہوکر بد دیانتی کرتے ہیں اور پکڑے جائیں تو مملکت پاکستان میں ذہین اور فطین وکیلوں اور قانون دانوں کی بھر مار ہے، بڑے سے بڑے مجرم کو یوں چھڑا لاتے ہیں کہ دنیا دیکھا ہی کرے۔ حال ہی میں ٹیلی وژن کے ایک خبر نامے میں دیکھا کہ سندھ کے لیے دواؤں کی جو بڑی کھیپ آئی، وہ غائب ہو گئی اور بڑی تلا ش کے بعد پتا چلا کہ پورا ذخیرہ ایک صاحب کے ذاتی مکان میں چھپا دیا گیا ہے۔

ہمارے دوست ملک چین میں تو یہ حرکت کرنے والے کو کھمبے سے باندھ کر گولی مار دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دیکھیے گا کہ دوا کی اتنی بڑی کھیپ اپنے گھر میں چھپانے والے صاحب شہر میں سینہ پھلائے گھوم رہے ہوں گے۔ جب سے میڈیا نے زور پکڑا ہے اور جرائم کی چھوٹی چھوٹی خبریں بھی عام ہونے لگی ہیں، ہم نے اتنے مجرموں کو آزاد گھومتے دیکھا ہے کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر کچھ عرصے پہلے اندرونِ سندھ سے جو عورت کراچی آئی تھی اور قائداعظم کا مقبرہ دیکھنے گئی تھی اسے کچھ درندہ صفت لوگوں نے اپنے ناپاک وجود تلے روندا اور پکڑے گئے، جرم ثابت بھی ہو گیا۔ بس سزا ہونے کی دیر تھی کہ وہی ماہرین قانون ہاتھ کی صفائی دکھانے پہنچ گئے اور خاتون کی بےحرمتی کرنے والے مجرم آج بھی شہر میں آزاد گھوم رہے ہیں۔

ایک بات مجھے بہت ستاتی ہے، سوچتا ہوں کہ اپنے قارئین سے بھی پوچھوں کہ جب آپ ٹیلی وژن پر کوئی خبرنامہ دیکھ کر اٹھتے ہیں تو اس وقت سر میں بھرا ہوا غبار کیا کہہ رہا ہوتا ہے۔ بس ایک جملے میں بتائیے کہ اس وقت اپنی کمر سیدھی کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں پوری صورت حال کا ایک فقرے میں نچوڑ کیا ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں کیا ہوتا ہے، کسی مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔

ایک خبر جو اگرچہ سینہ بہ سینہ چل رہی ہے لیکن اس میں صداقت کا شائبہ نظر آتا ہے وہ یہ کہ پاکستان کے اسپتالوں نے ایک عجب رویہ اختیار کیا ہے۔ اسپتال ہر مرنے والے کو، خواہ وہ کسی بھی سبب سے جاں بحق ہوا ہو، سب کو بھیڑ بکریوں کی طرح کورونا کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ لوگ وثوق سے بتاتے ہیں کہ طبعی موت مرنے والوں کے عزیز و اقارب چیختے چلاتے رہ گئے کہ مرحوم کے بدن میں کورونا کی کوئی علامت نہیں تھی، اسپتال والوں نے ان کے نام جھٹ سے کورونا کے مریضوں میں ڈال دیے۔

ایسی کتنی ہی خبریں سننے میں آئیں کہ مریض چند گھنٹوں کے اندر مر گئے اور علاج کی نوبت ہی نہیں آئی یا یہ کہ کوئی انجکشن ضرور لگایا گیا تھا بس اس کے بعد سنّاٹا۔ کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے مگر ایک بات ایسی ہے جو پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ کورونا کی موت کتنی اذیتناک ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس مرض کے پھوٹ پڑنے کے تیسرے یا چوتھے روز کسی مریض نے مرنے سے پہلے اسپتال والوں کو آخری وصیت کی کہ اس کے مرنے کا منظر عوام کو دکھایا جائے۔ میں نے دیکھا۔ اس منظر کے کچھ لمحے دکھائے گئے، لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور مطالبہ کیا کہ آئندہ اس طرح کی کوئی کارروائی نہ دکھائی جائے۔

پاکستان میں لوگوں کو بات سمجھانے کے لیے اور کتنے افراد کی زندگیوں کے چراغ گُل کرنا ہوں گے۔ آج تک لوگ طرح طرح کی کہانیاں ڈال رہے ہیں کہ کورونا سازش ہے، جھوٹ ہے، فریب ہے، اور یہ کہ فلاں پتے ابال کے پی لو اور بھلے چنگے ہو جاؤ۔ بس لوگ ایسی ہی طفل تسلیوں سے جی بہلا رہے ہیں۔ سوچیں تو خیال ہوتا ہے کہ دس طرح کے عذاب سروں پر منڈلا رہے ہیں، مگر حیرت ہے کہ کوئی بحران لوگوں کے رویّوں کو درست نہیں کرتا۔ سیاست زدہ لوگ ایک دوسرے کو کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنی جیب بھرنے کے جتن بھی کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں مجھے معراج خالد مرحوم رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔

خالص عوامی آدمی تھے۔ ایک بار خدا جانے کیا ہوا کہ انہیں ملک کا نگراں وزیراعظم بنا دیا گیا۔ پورے ایک مہینے بعد انہوں نے قوم سے خطاب کیا جس کا ایک تاریخی جملہ مجھے یاد رہے گا۔ کہنے لگے ’’میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے‘‘۔ دل کو لگتی ہے بات معراج خالد کی۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے