آنسوؤں میں بھیگی رات

ابھی صبیحہ بھابی کا سوگ ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ طارق عزیز بھی بچھڑ گئے کہ یہی کچھ زندگی کا خلاصہ ہے۔لینا ایک نہ دینے دوجب تک ہو تم، تب تک ہوصرف یادیں، باتیں اور تصویریں ہی باقی رہ جاتی ہیں اور پھر وقت کی دیمک انہیں بھی چاٹ جاتی ہے۔

صبیحہ بھابی کے انتقال سے صرف چند روز پہلے سنتوش بھائی کی برسی تھی جن سے چھوٹے تھے درپن بھائی، خوبرو جن کے نام کا حصہ بن چکا تھا۔ ان سے چھوٹے ایس سلمان جو اپنے وقت کے مانے ہوئے ہدایت کار تھے اور سب سے چھوٹے سید منصور عباس جو میرے عزیز ترین دوستوں میں شامل ہے۔

دوستی کی عمر تقریباً 50سال۔منصور بھی اپنے بھائیوں کی طرح بے حد ہینڈ سم اور طرحدار۔ چند فلموں میں لیڈنگ رولز بھی کئے لیکن کیریئر کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ منصور سے دوستی کی وجہ سے ہی میں اس تاریخی خاندان کا حصہ رہا اور آج تک ہوں۔

سنتوش بھائی مسلم ٹائون میں رہتے اور گھر کا نمبر تھا ’’ون مسلم ٹائون‘‘ جس کے وسیع و عریض برآمدے میں موجود میز پر ہم ’’بچہ لوگ‘‘ پنگ پانگ کھیلا کرتے۔ کبھی کبھی سنتوش بھائی بھی ہمیں جوائن کرلیتے تو وہ بازی یادگار بن جاتی۔

انتہائی تعلیم یافتہ، انتہائی کلچرڈ اور ویل مینرڈ سنتوش بھائی سے بہت کچھ سیکھا۔ مسحور اور انسپائر کردینے والی پرسنالٹی کا ہی کمال تھا کہ بڑی بھابی جمیلہ اور چھوٹی بھابی صبیحہ میں تعلق سوکنوں کا نہیں بہنوں سے بڑھ کر تھا۔

صبیحہ بھابی کے انتقال سے ایک روز پہلے منصور نے بتایا کہ سلو بھائی (ایس سلمان) ہسپتال سے گھر شفٹ ہوگئے ہیں جبکہ صبیحہ بھابی کی حالت مخدوش ہے۔

میں نے ’’میرے مطابق‘‘ کے پروڈیوسر بھائیوں جیسے فاروق بھائی کو فون کرکے کہا کہ کل کے پروگرام میں اپنے ویورز سے ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی درخواست کرنی ہے لیکن فرشتۂ اجل نے اس اپیل کی نوبت ہی نہ آنے دی اور وہ خاتون رخصت ہوگئیں جو 50سال پہلے بھی تہجد تک قضا نہ کرتی تھیں۔

سب کہاں کچھ لالۂ و گل میں نمایاں ہوگئیںخاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیںاور طارق عزیز کو تو دنیا جانتی مانتی تھی۔ وہ نہیں لیکن میں ضرور جانتا تھا کہ وہ میرے قریبی عزیز ہیں لیکن میں نے کبھی بتانا مناسب نہ سمجھا۔

میری اک سگی خالہ زاد فیئرفکس واشنگٹن میں رہتی ہیں جو طارق بھائی کی بھی کزن ہیں۔ جم پل امریکہ کی، نک نیم بے بی ’’اینیمل لور‘‘ تھوڑی کریک کہ نہ گوشت کھائیں نہ انڈے کو ہاتھ لگائیں، نہ دودھ کو کہ یہ بے زبانوں پر ظلم ہے۔

اللہ بخشے میری امی جب بھی جاتیں اسے بہت سمجھاتیں کہ یہ پاگل پن ہے لیکن لاڈلی بھانجی نے خالہ سے بے پایاں محبت کے باوجود ان کی ایک نہ سنی۔

بہرحال قصہ مختصر تقریباً 20،21 سال پہلے طارق بھائی امریکہ گئےتو بے بی کے محل نما گھر میں ٹھہرے۔ کسی شام میرا ذکر چھڑا تو طارق بھائی میرے اس تعارف پر حیران ہو کر بولے کہ اس نے تو مجھے کبھی بتایا ہی نہیں کہ وہ میرا کیا

لگتا ہے۔ بے بی نے کہا ’’تم بڑے ہو اب جا کر اسے بتا دینا‘‘۔طارق بھائی نے واپسی پر مجھے فون کرکے خوب ڈانٹا کہ میں نے انہیں بتایا کیوں نہیں کہ میں خالہ خورشید کا بیٹا ہوں۔ پھر میں نے ان کے کالموں کے ایک مجموعہ کا دیباچہ بھی لکھا۔

ملاقات پھر بھی کم لیکن فون پر بات اکثر۔ عجیب بات ہے کہ پہلی بار گزشتہ چند دنوں میں کئی بار انہیں ملنے کا خیال آیا لیکن میں اپنی سستی کا شکار ہوگیا۔ شاید ٹھیک ہی ہوا۔ طارق بھائی کا تعارف کیا کہ دنیا مجھےسے بہتر جانتی ہے۔ اتنا ضرورکہوں گا کہ صحیح معنوں میں کثیر الجہت شخصیت تھے۔

سرتاپا اک پاکستانی، سرتا پا فن کار، سرتا پا تخلیق کار۔17اور 18جون کی درمیانی رات مجھ پربھاری گزری۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً یہ رات آنسوئوں میں بھیگی ہوئی رات تھی۔ میں نے سنتوش بھائی صبیحہ بھابی کی یاد میں ان کی شہکار فلموں وعدہ، سات لاکھ، موسیقار، حمیدہ، مکھڑا وغیرہ کے منتخب حصے دیکھے۔

’’وعدہ‘‘ کا وہ گیت ’’بار بار ترسیں مورے نین‘‘ اور ’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘۔ ’’سات لاکھ‘‘ کا وہ لازوال گیت ’’قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے‘‘۔ ’’مکھڑا‘‘ کا کبھی نہ بھلایا جانے والا گیت …..’’دلا ٹہر جا یار دا نظارہ لین دے‘‘ جو بار ی باری دونوں پر دو بالکل سچوئشنز میں پکچرائز ہوا، اسی طرح ’’موسیقار‘‘ کا ’’گائے گی دنیا گیت میرے‘‘ دکھ دو چند یہ سوچ کر ہوا کہ ان کے باقی ساتھیوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں۔

نہ علاءالدین رہ گئے جو ’’مکھڑا‘‘ کے ولن تھے نہ الیاس کشمیری جو ’’وعدہ‘‘ میں ہیرو کے دوست تھے، نہ آصف جاہ ، نہ ایم اسماعیل، نہ ناقابل فراموش کامیڈین نذر، نہ ہمالیہ والا۔ کبھی ان ناموں کی گونج ہی ختم نہ ہوتی تھی لیکن آج؟

اسی طرح میں نے طارق عزیز صاحب کی ’’زندگی‘‘ سے لے کر ’’انسانیت‘‘ تک جیسی فلموں کی جھلکیاں دیکھیں۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ’’زندگی‘‘ میں طارق صاحب اور ٹی وی کے سپرسٹار شکیل اکٹھے تھے۔

اسی طرح ’’انسانیت‘‘ میں زیبا کی ایک طرف وحید مرادتو دوسری طرف طارق عزیز جنہوں نے کینسر کا مریض ہونے پر ایسی پرفارمنس دی کہ تب خواتین کے آنسو نہ تھمتے تھے۔

شاید آنسو ہی آخری حقیقت ہیں اور آنسو کیا ہے؟پانی کے قطرے اور قطرہ کیا ہے؟’’عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘‘

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے