کیا ایک سے زیادہ لوگوں کو دل دیا جا سکتا ہے؟

رشتوں میں زبردستی نہیں ہو سکتی۔ پچھلے دنوں لاہور میں ایک واقعہ ہوا جس میں چند خواتین ایک گھر میں داخل ہوئیں جہاں عثمان (جو کہ ان میں سے ایک کا شوہر تھا) کو ایک دوسری خاتون کے ساتھ پایا۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچ گیا، دونوں جانب کے موقف، ان کی طرف داریاں اور مخالفت بھی پرزور انداز میں سامنے آئیں۔

میں کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس واقعے کا صرف ایک ریفرنس کے طور پر ذکر رہی ہوں۔ بات مختلف ہے لیکن کہیں سے تو شروع کرنی ہے۔

عثمان جیسے نجانے کتنے لوگ ہوں گے جو اس مجبوری میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دوسری شادی ایک معیوب بات تصور کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے دین اور قانون دونوں اس کی اجازت دیتے ہیں۔

میرے ایسے کئی دوست ہیں جو درحقیقت اپنی فیملی کو بہت چاہتے ہیں، (خواتین اور مرد )لیکن انہیں کسی اور سے بھی محبت ہو جاتی ہے، وہ دونوں ذمہ داریاں ساتھ نبھانا چاہتے ہیں لیکن ان کے سامنے چوائس رکھ دی جاتی ہے۔

ہر انسان کی فطرت الگ ہوتی ہے، کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے، اور کسی کو دل توڑنے کی ہمت نہیں ہو پاتی ،جو ہمت کر جاتے ہیں ان کو اکثر اپنے پہلے شریک حیات کا ساتھ چھوڑنا پڑ جاتا ہے اور جو ساتھ نہیں چھوڑ پاتے انھیں اپنے دل اور خوشیوں پر جبر کرنا پڑتا ہے، کیوں؟؟

دل اور سوچوں پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا، لاکھ سمجھا لیں یہ خود ہماری بھی نہیں سنتے، کسی کے لیے دل میں جگہ بس بن جاتی ہے لاکھ کوشش کرلیں، نہیں جاتی۔

اس لیے کسی کے لئے احساس پیدا ہونے کا ہمیشہ یہی مطلب نہیں ہوتا کہ اول میں کوئی کمی تھی یا اس کی کوئی غلطی ہے۔

ہمیشہ یہی سنا اور بتایا گیا ہے کہ محبت صرف ایک سے ہوتی ہے۔ اس لئیے اگر آپ کو کسی اور سے عشق ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بس وہی آپ کے دل میں ہے۔ یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ پہلے دل میں بسنے والوں کا وقت ختم ہو گیا۔

محبت کوئی مادی چیز نہیں ہے، یہ ایک احساس ہے، جذبہ ہے بالکل ایسے جیسے خوشی یا غم، جس طرح ایک خوشی دوسری خوشی کو اور ایک غم دوسرے غم کو زائل نہیں کرتے، ایسے ہی ایک کی محبت دوسرے کی محبت کو ختم نہیں کرتی۔

آپ کو میری باتیں بہت عجیب لگ رہی ہوں گی، لیکن ذرا اپنے اطراف نظر دوڑائیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ فارمولا ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کے رشتے کے علاؤہ بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ دو دوستوں میں تیسرا دوست آگیا تو ایک insecure محسوس کرنے لگتا ہے، کیونکہ بیسٹ فرینڈ تو ایک ہی ہو سکتا ہے۔

شادی کے بعد گھر والے یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اب تو زیادہ قریب بیوی ہے، ہم کہاں؟

حد تو یہ ہے کہ بچوں سے بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ امی پسند ہیں یا ابو؟

وحدانیت پسندی دین میں ہی رہے تو بہتر ہے ، دنیاوی رشتے اس سے الگ ہی رہنے دیں۔

محبت شرائط کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ ہم اگر کسی سے عشق کا دعوی کرتے ہیں تو اس کے دل میں بسنے والوں سے نفرت کیسے ممکن ہے! ہم کیوں کسی سے اس وقت تک محبت کرتے ہیں جب تک وہ صرف ہم سے محبت کرے۔

جو آپ کے دل کے قریب ہیں ان کے اتنے قریب ہو جائیں کہ وہ بے فکر، آپ سے اپنی سوچیں اور احساسات شیئر کر سکیں، چاہے وہ کسی اور کے بارے میں ہی کیوں نا ہوں، یقینا یہ ایک مشکل مرحلہ ہو تا ہے ، لیکن کس نے کہا کہ عشق آسان کام ہے۔

محبت میں چوائس نا رکھیں، اگر آپ اسے بانٹ نہیں سکتے تو یہ آپ کا فیصلہ ہے، اس کا بوجھ سامنے والے کے کندھوں پر نا ڈالیں ہو سکتا ہے وہ اسے بانٹنے کو تیار ہو۔

میں مرد و خواتین کو احساسات کے معاملے میں مختلف نہیں سمجھتی۔ (قانونی اور دینی مسائل کی پیچیدگیاں الگ مسئلہ ہیں، میری تحریر کو اس تناظر سے ہٹ کر دیکھا جائے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے