جسٹس فائز عیسی کیس کو دیکھنے کے تین زاویے

اول حکومت کا حامی بن کر دیکھا جائے. دوم جسٹس قاضی فائز عیسٰی صاحب کا حامی بن کر دیکھا جائے. سوم : اسے کسی بھی حمایت یا نفرت سے با لاتر ہو کر دیکھا جائے.

معاملہ فریقین سے محبت یانفرت میں دیکھا جائے تو بہت سے امکانات اور خدشات کی بات کی جا سکتی ہے. معاملے کو اگر نفرت یا محبت سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے تو بات بڑی واضح ہے.

1. ریفرنس بد نیتی پر مبنی تھا. الزامات بودے تھے. ریفرنس بنتا ہی نہیں تھا. ریفرنس خارج ہو گیا. حکومتی ٹیم ناکام ہوئی. اسے ناکامی ہی کہا جائے گا.

2. ایف بی آر کو معاملہ بھیجنا ایک جائز بات ہے. حکومت کا کہنا تھا جج کے اہل خانہ کے خلاف ایف بی آر کیسے کارروائی کرے اس لیے ہم نے ریفرنس دائر کیا. عدالت نے کہا جاؤ اب ہم اجازت دے رہے ہیں کرلو.

3. عدالت کے سامبے معاملہ ریفرنس کا تھا جو اڑا دیا گیا. مروجہ قانونی طریقہ کار سے کسی سے بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں. سپریم کورٹ نے بھی یہی کیا ہے.

4. سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے کہ الزام اور وضاحت کے بارے میں فیصلہ دیتی. یہ فیصلہ اعلی عدالت کرتی تو کوئی ایک فریق آرٹیکل 10 اے کے تحت دستیاب حقوق سے محروم ہو جاتا. اس نے معاملہ متعلقہ فورم پر بھیج دیا.

یہاں الزام لگانے والے کو بھی پورا موقع ہو گا اور دفاع کرنے والے کو بھی پورا موقع ہو گا. اپیل کے حق بھی دستیاب ہوں گے.

5. فرض کریں ایف بی آر ایسے ثبوت لاتی ہے جن کا قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ دفاع نہیں کر پاتیں اور فرض کر لیں ان الزامات کی زد میں قاضی صاحب بھی آ جاتے ہیں اور وہ بھی دفاع نہیں کر پاتے تو اس صورت میں کیا ہو گا؟ اس صورت میں پہلا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم جیسے طالب علم قاضی فائز عیسٰی صاحب کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں گے.

معاملہ عقیدت یا نفرت کا نہیں. سچائی کا ہے. آپ کا ریفرنس کمزور تھا اور بادی النظر میں بد نیتی پر مبنی تھا اور آپ نے کارروائی اس لیے نہیں لی کہ آپ کے سامبے قاضی فائز عیسٰی صاحب کے کچھ معاملات آئے بلکہ چونکہ آپ نے ان کے خلاف کارروائی کرنا تھی اس لیے معاملات تلاش کرنے کی کوشش کی. ریفرنس خارج ہو گیا

لیکن قانون سے بالاتر کوئی نہیں. ثابت کر دیجیے ہم طالب علم قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ نہیں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے.

ریفرنس میں آپ ناکام ہوگئے ہیں. محض اس بنیاد پر ناکامی کے اعلان کو موخر نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کی طاقت بہت ہے اور آپ قاضی فائز عیسٰی کو آسانی سے چھوڑنے والے نہیں وغیرہ اور وغیرہ.

قاضی صاحب کے ساتھ کوئی یہ سوچ کر کھڑا ہے کہ وہ غلط ثابت ہو گئے پھر بھی ان کا دفاع کیا جائے گا تو وہ غلطی پر ہے اور حکومت کے ہر غلط کام کا کسی نے دفاع کرنے کی ٹھان رکھی ہے تو وہ بھہ غلطی پر ہے. ایشو ٹو ایشو بات کرنی چاہیے اور ضمیر کی آواز بلند کرنی چاہئیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے