گلگت بلتستان کے قدرتی خزانے تباہی کے دہانے پر

اللہ تعالیٰ نے گلگت بلتستان کو جہاں بے پناہ حسن سے نوازا ہے وہاں اس خطے کو قدرتی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے، یہ خطہ آبی زخائر سمیت، جنگلات، جنگلی حیات،معدنیات، آبی حیات اور ادویاتی پودوسے لدا ہوا ہے۔اگر ہم صرف ادویاتی پودوں کی بات کریں تو گلگت بلتستان کے ضلع سکردو، ضلع استور،دیامر قابل ذکر ہیں، ان علاقوں میں اس وقت ضلع استور کادور افتادہ علاقہ منی مرگ، قمری اور کلشئی، کالاپانی، کو فوقیت حاصل ہے۔ کیوں کہ یہاں دنیا کے نایاب اور قیمتی ترین ادویاتی پودے موجودہیں۔ڈاکٹر کفایت اللہ خان (مرحوم) جوکہ ہر بل فار ما میں پی ایچ ڈی تھے اور غالباً یہ گلگت بلتستان کے واحد ڈاکٹر تھے جنہوں نے گلگت بلتستان میں موجود ادویاتی جڑی بوٹیوں پر 9سال تک ریسرچ کی ہے۔ انہوں نے ایک ادارے کو انٹریو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے علاقے ہمالیہ، دیوسائی، منی مرگ،قمری اورکلشئی میں موجود پودوں میں وہ قیمتی ادویاتی بوٹیاں بھی موجود ہیں جن سے کینسر، ہارٹ اٹیک،ہیپا ٹائٹس، بلڈ پریشر،شوگر اور ملیریا جیسی خطرناک بیماریوں کامکمل علاج ممکن ہے۔

انکا کہناتھا کہ 1947 سے قبل ضلع استور کے دور افتادہ علاقہ قمری کلشئی سے سسوریا لیپا نامی جڑی بوٹی کو زمین سے نکال کرسیرینگر کے راستے انڈیا پہنچایا جاتا تھا، جہاں اسکی پیوند کاری ہوتی تھی اور انڈیا آج بھی ہماچل پردیش میں اس کی پیوند کاری کرکے کروڑوں روپے میں دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کرتاہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر گلگت بلتستان حکومت اس قدرتی خزانے کو بچانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے تو نہ صرف گلگت بلتستان کا پورا بجٹ پیدا کیا جاسکتاہے بلکہ ذر مبادلہ بھی کمایا جاسکتاہے۔اس وقت گلگت بلتستان کے خوبصورت ترین علاقہ منی مرگ قمری اور کلشئی میں اس خزانے پر ہاتھ صاف کئے جا رہے ہیں اور سالانہ کروڑوں روپے مالیت کی بو ٹی نکالی جاتی ہے اورمقامی لوگوں سے یہ نایات بوٹی کوڑی کے دام پر خریدی جارہی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق منی مرگ قمری اور کلشئی سے گزشتہ سال(2018)میں پانچ کروڈ سے زائد مالیت کی جڑی بوٹی کی خرید و فرخت ہوئی اور رواں سال بھی یہ دھندہ عروج پر ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس کاروبار سے وابستہ افراد نے رواں سال 10سے 15کروڑ کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوتا ہے۔یہ انتہائی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹی کہاں جاتی ہے ؟ کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ اور یہ سب کچھ کس قانون کے تحت کیا جارہاہے ؟کروڑوں روپے بزنس کیReality کس کو مل رہی ہے؟ مقامی لوگ اس تمام تر معاملے سے بے خبر ہیں۔

صوبائی حکومت، محکمہ فارسٹ، محکمہ ایگریکلچر بھی بے خبر ہیں یا خبر ہونے کے باوجود چشم پوشی میں مصروف ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے محکمہ فارسٹ کی جانب سے بھاری مقدار میں قبضہ کی گئی بوٹی کہاں گئی اس حوالے سے بھی کوئی تفصیل آج تک سامنے نہ آسکی ہے۔چند ماہ قبل صوبائی وزیر جنگلات و جنگلی حیات گلگت بلتستان عمران وکیل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران گلگت بلتستان میں ہر قسم کی جڑی بوٹی کی خروید فروخت پر 5سال کیلئے پابندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر بھی عملدر آمد کہیں نظر نہیں آرہاہے۔

صوبائی وزیر نے جڑی بوٹی پر پابندی کا جواز یہ پیش کیا تھاکہ سی بی ای کے نام سے کچھ علاقوں میں جڑی بوٹی کے تحفظ اور عوام میں اس سے متعلق شعور اجاگر کرنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں جو کہ ناکام ہوئی اور کمیٹیاں اپنے مقصد سے ہٹ کر کام کرنے لگی ہیں جس کی وجہ سے پابندی لگائی جا رہی ہے۔

[pullquote]دھماسا نامی جڑی بوٹی سے کینسر کا علاج ممکن [/pullquote]

قارئین کرام! ان ادویاتی پودوں میں دھماسا، سسوریا لیپا، پطریس کھٹمنڈی، جنگلی تھوم، چھوٹی چندن،کورڈ اور دیگر پودے شامل ہیں بتایا جاتاہے کہ دھماسا نامی جڑی بوٹی کوگلگت کی زبان میں سچی بوٹی بھی کہاجاتاہے اس بوٹی سے کینسر کا علاج ممکن ہے،کھٹمنڈی نامی بوٹی ہیپاٹائٹس،چھوٹی چندن،بلڈ پریشر،پطریس،زخموں کے علاج سمیت پیٹ درد، پیٹ کے کیڑوں اور متعدد ادویات میں شامل کی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں کینسر، ہارٹ،بلڈ پریشر،شوگر اور ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے،ان بیماریوں کا علاج بھی مہنگا ترین ہے اور مخصوص مقامات پر ہی ممکن ہے ان مخصوص مقامات تک غریب اور متوسط طبقہ کے مریضوں کی رسائی اور بھاری اخراجات کے وسائل نہ ہونے سے مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ میڈیکل سائنس میں ان بیماریوں کی روک تھام تو ہے مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عمر بھر ادویات کا استعمال جاری رہتاہے۔لیکن اسکے متبادل قدرتی جڑی بوٹیوں میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف بیماریوں کا مکمل علاج رکھاہے بلکہ انکے استعمال سے ان بیماریوں کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ اس کی حقیقت کو جاننے کے بعد دنیا تیزی سے ہربل فارما (جڑی بوٹیوں) کی طرف آرہی ہے۔بھارت، چائینہ جاپان اور دیگر ممالک ہربل فارما میں اپنی پہچان بنانے لگے ہیں اور وہ ان پودوں کو کاشت کرتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں یہ خزانہ قدرتی طور پر موجود ہے بس ضرروت اس امر کی ہے کہ اسکو استعمال میں لایاجائے۔

میری رائے یہ ہے کہ ان بوٹیوں پر پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے کیوں کہ اسکا حکومت کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی حکومتی اداروں اور مقامی لوگوں کو۔ مقامی غریب نوجوان روز گار کیلئے ملک کے دیگر شہروں میں جاکر ہوٹلوں، کار خانوں،دکانوں اور مارکیٹوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں وہ سیزن میں اپنی زمین اور چراگاہوں سے ان جڑی بوٹیوں کو نکال کر فروخت کرتے ہیں جس سے انکے گھرو ں کے چولہے جلتے ہیں جڑی بوٹی پر پابندی سے سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کے چولہے بجھ سکتے ہیں۔ روک تھام کے عمل کے ساتھ ہی عوام کی مایوسی اور بے چینی میں اضافہ ہوا ہے اور یہاں سے شہروں کی طرف نکل مکانی کے عمل میں تیزی کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے اس حوالے سے صوبائی حکومت کو مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی اور قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

گلگت بلتستان میں ان قدرتی خزانوں کو بچانے صحت مند معاشرہ کی تشکیل اور کینسر،ہارٹ،ہائی بلڈ پریشر جیسی خطرناک بیماریوں سے عوام کو بچانے کیلئے باقاعدہ طور پر الگ سے ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے اورہر بل فار ما پر کام کرنے والی کمپنیوں کو گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہا ں باقاعدہ طور پر پلانٹس لگائیں اور مقامی لوگوں کی زمینوں سے منڈی ریٹ پر خریداری کی جاسکے۔

اسکے ساتھ ساتھ پاکستان ریسرچ کونسل کے ذریعے ان پر مزید ریسرچ کی جائے اور قابل کاشت ادویاتی پودوں کے متعلق عوام میں Awareness مہم چلائی جائے تاکہ مقامی لوگ اپنی زمینوں میں اسکی کاشت سمیت دیگر Natural plants(قدرتی پودوں)کی حفاظت کو یقینی بنا سکیں۔ اگر ہماچل پردیش میں سسوریا لیبا نامی بوٹی قمری سے لے جاکر کاشت ہو سکتی ہے تو ان قیمتی بوٹیوں کو گلگت بلتستان میں کاشت کیوں نہیں کیا جا سکتاہے۔

حکومت اس معاملے میں توجہ دے تو یقینا ان خطر ناک امراض میں مبتلاء مریضوں کو گھر کی دہلیز پر لاکھوں روپے کا علاج سینکڑوں روپے میں کرانے کی سہولت دستیاب ہوگی جبکہ یہاں کے نوجوانوں کو روز گار کے مواقع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ غربت،بے روز گاری میں کمی اورصحت مندمعاشرہ کی تشکیل میں مدد بھی ملے گی۔ اس طرح ہم گلگت بلتستان میں غربت و بے روز گاری کے ساتھ ساتھ خطرناک بیماریوں کو شکست دیکر خوشحال،خودار اور خود مختار گلگت بلتستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے