چین بھارت سرحد پر کیا ہورہا ہے

ایسے وقت میں جب بھارت اپنے روایتی انداز میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کے حوالے سے قوم پرستی کے جذبات ابھارنے میں مصروف ہے اور بھارت کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے یہ ضروری ہے کہ سرحد پر ہونے والے واقعات کے بارے میں جانا جائے ۔کیونکہ ایک طرف بھارت خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف اپنے غاصبانہ عزائم کا بھی کھل کر اظہار کررہاہے کہ گلگت بلتستان ،لداخ اورکشمیر بھارت کا حصہ ہے ۔ چین سرحدی تنازعہ کا پرامن مذاکرات کے ذریعے حل چاہتاہے اور نہ صرف سرحد پرموجود چینی فوج کے اہلکار بھارتی فوجی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرت میں مصروف ہیں بلکہ وزرائے خارجہ سطح پر بھارت کے ساتھ رابطہ کیا جاچکا ہے سرحد پر کیا ہوتا رہا آئیے جانتے ہیں۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے انیس جون کو منعقدہ معمول کی پریس کانفرنس  کے بعد صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب میں  چین اور بھارت کے درمیان گلوان وادی میں ہونے والے تنازعہ کے بارے میں شروع سے لے کر اب تک ہونے واقعات کی تفصیلات بتائیں۔
چاؤ لی جیان نے کہا کہ گلوان وادی چین اور بھارت کی سرحد کے مغربی حصہ میں حقیقی کنڑول لائن کے چین کی طرف واقع ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے چین کی سرحدی دفاعی فوج اس حصے میں معمول کے مطابق اپنے فرائص سرانجام دے رہی ہے۔اس سال اپریل سے بھارتی سرحدی فوج  یک طرفہ طور پر گلوان وادی میں سڑکوں اور پلوں سمیت دیگر تنصیبات کی تعمیر کررہی ہے ۔

چھ مئی کی صبح بھارتی سرحدی دفاعی فوج گلوان وادی میں سرحد پار کر کے چین کی سرزمین میں داخل ہوئی اور تنصیبات کی تعمیر شروع کردی، جب چینی سرحدی دفاعی فوج نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو بھارتی فوج اشتعال انگیز حربوں پر اتر آئی۔
بھارت نے یک طرفہ طور پر حقیقی لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔جواباًچینی سرحدی دفاعی فوج کو ضروری اقدامات اختیار کرنا پڑے اور فوری طور پر سرحدی علاقے پر اپنے کنڑول کو مضبوط بنانا پڑا۔
چھ جون کو دونوں سرحدی افواج کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی اور سرحدی علاقے میں صورتحال کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا گیا۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پندرہ جون کی شام کو بھارت کی فرنٹ لائن پر موجود سرحدی فوج نے کھلم کھلا  فریقین کے حاصل کردہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حقیقی کنڑول لائن پار کر اشتعال انگیز کارروائی کی اور چینی فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔

بھارتی فوج کی کارروائی سے سرحدی علاقے میں استحکام کو نقصان پہنچاگیا، چینی اہلکاروں  کی جان کو خطرے  سے دوچار کیا گیا ، دونوں ممالک کے درمیان سرحدی امور پر حاصل کردہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی گئی اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصو ل کی بھی  نفی کی گئی۔چین نے اس حوالے سے بھارت کو اپنی شدید تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا ۔
سترہ جون کو چینی ریاستی کونسلر اور وزیرخارجہ وانگ ای نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر چین کے موقف کا اعادہ کیا انہوں نے بھارت سے واقعے کی تحقیقات کروانےاور اشتعال انگیز کارروائیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوسکے۔

فریقین نےگلوان وادی  میں تنازعہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین واقعے  سے منصفانہ  طور پر نمٹنے ، مشترکہ طور پر فریقین کے مابین فوجی رہنماؤں کے مذاکرات میں حاصل کردہ اتفاق رائے پر عمل  کرنے  ، جلد از  جلد صورتحال کو معمول پر واپس لانے اور دونوں ملکوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق سرحدی علاقے میں امن و سکون برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔


چین کے  سرحدی تنازعہ میں گرفتار کئے گئے بھارتی سپاہیوں کو رہا کرنے کی اطلاعات کے جواب میں چینی ترجمان نے اسی  روز منعقدہ رسمی پریس کانفرنس میں بتایا کہ چین نے کسی بھی بھارتی  اہلکار کو حراست میں نہیں لیا ہے۔

دوسری طرف بھارت نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور بھارتی میڈیا آگ پر تیل چھڑکنے کا کردار ادا کررہا ہے۔ چین تحمل کا مظا ہرہ کررہاہے ۔ مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا پر امن حل ہمیشہ چین کا موقف رہاہے ۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعات کے حل کے لیے بھی چین نے مذاکرت کا راستہ اپنایاہے اور ہمیشہ کہتاہے رہاہے کہ مذاکرت ، بات چیت اور تعاون کے ذریعے ہی مسائل کو حل کیا جاسکتاہے ۔ سرحدی تنازعہ کا پرامن حل ہی خطے اور پوری دنیا کے مفاد میں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے