کرونا کی آفت میں “تاریخی فیصلہ”: المیہ یا پھر ڈھکوسلہ

کیا خوب کہا ہے ہمارے ہمنوا بیرسٹر بابر ستار نے (جو جسٹس قاضی عیسیٰ کے وکلا میں شامل تھے) کہ ’’فیصلے پہ چنداں بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں: جتنے حالات بدلتے ہیں، وہ ویسے کے ویسے رہتے ہیں (جیسے تھے)‘‘۔ ہماری بیچاری کِرم خوردہ تاریخ جو ہمارے ہاں آئے روز بنائی جاتی ہے، لیکن بنائے نہیں بنتی پہ موصوف کا اصرار ہے کہ ’’تاریخ دہراتی ہے: المیہ کی صورت یا پھر ڈھونگ (کی مانند)‘‘۔ تو پھر اس زخم تازہ پہ عدلیہ کی آزادی اور تمکنت کے پروانے کس برتے پہ دھماچوکڑی کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔ اور جس ’’کاسۂ لیس‘‘ کی بے توقیری ہونی تھی وہ ایک ٹیلی ویژن شو میں ’’فتح‘‘ کے ڈونگرے برساتے نظر آئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، تمام بار ایسوسی ایشنز و دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے پہ سوشل میڈیا پر ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘ کی بحث چل نکلی ہے۔ کسی دل جلے نے اسے ’’کامیابی کی ناکامی‘‘ (Pyrrhic victory) قرار دے کر یونانی جنرل پیروس (Pyrrhus) کے ہاتھوں رومیوں کی آسکلم کی جنگ میں ایسی فتح سے مماثل کیا ہے جس میں فاتح جنرل کی فوجوں کی اتنی تباہی ہوئی کہ وہ روم فتح نہ کر پایا۔

کوئی برادرانِ یوسف کا قصہ لے بیٹھا تو کوئی پنجابی محاورے ’’مجھاں مجھاں دیاں بھیناں‘‘ (بھینسیں بھینسوں کی بہنیں) کے مصداق برادر ججوں کی برادری کے باہم مفاد پہ تنکتا دکھائی دیا۔ غرض جانے کیوں ’’کون جیتا کون ہارا‘‘ کے کنفیوژن میں ایک بسکٹ کے اشتہار میں ایمپائر ’’ففٹی ففٹی‘‘ کرتا یاد آیا۔ طویل عدالتی کارروائی کے دوران تفتیش کار (Inquisitors) کٹہرے میں نظر تو آئے، لیکن صاف بچ نکلے۔ عدالتِ عظمیٰ نے جونہی حکومت کو جسٹس فائز اور اُن کی بیگم کے ٹیکس معاملات کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھجوانے کی تجویز دی تو جیسے پژمردہ استغاثہ کی باچھیں کھل اُٹھیں۔

اگلے ہی روز جونہی وفاق کے وکیل نے اس پہ رضامندی ظاہر کی تو جیسے ایک ’’کاؤنٹر کو‘‘ ہو گیا۔ مستغیث جسٹس قاضی عیسیٰ نے خود پیش ہو کر اپنی بیگم کی پیشکش کی کہ وہ جائیداد، منی ٹریل اور ٹیکس کے معاملات پر خود عدالت کے روبرو حقائق پیش کرنا چاہتی ہیں تو ہر طرف جیسے سناٹا چھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مستغیث جج صاحب کے وکیل نے عدالت کی اس تجویز کو ردّ کر دیا اور فیصلے پہ اصرار کیا۔ جب محترمہ سرینا عیسیٰ نے عدالت کے روبرو اپنی دردناک کتھا سنائی اور تمام تر حقائق و دستاویزات پیش کر دیں تو معزز جج صاحبان نے صاف طور پر اقرار کیا کہ بیگم صاحبہ نے جو حقائق پیش کیے ہیں وہ قابلِ یقین ہیں اور اُن کی جائیداد اور منی ٹریل سے اُن کے خاوند کا کوئی تعلق دکھائی نہیں پڑتا۔ اب گیند فل کورٹ کے کورٹ میں تھی۔

جو فیصلہ آیا، اُس کی تفاصیل نے ابھی آنا ہے، لیکن مختصر حکم نے جہاں درخواست گذار جسٹس قاضی عیسیٰ اور بار ایسوسی ایشنز کی درخواست قبول کرتے ہوئے جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف صدارت ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو متفقہ طور پر کالعدم قرار دے دیا (شق 1)۔ وہیں پر عدالتِ عظمیٰ کے دس میں سے سات ججوں نے اکثریت سے بقول بیرسٹر بابر ستار ’’ریاست کو دوسرا موقع فراہم کر دیا کہ وہ اپنے مقدمہ کو بہتر بنائے اور ایک ایسا کیس بنائے جس سے جسٹس قاضی عیسیٰ کا دوبارہ ٹرائل کرکے انہیں فارغ کیا جا سکے۔‘‘

مختصر حکم کی پہلی شق میں جو پروانہ برئیت جسٹس قاضی عیسیٰ کو دیا گیا، یوں لگتا ہے کہ اگلی شقوں، خاص طور پر شق نمبر 9 اور 10 میں اُسے ایف بی آر کی تحقیقات اور اُن پر سپریم جوڈیشل کونسل کے سوموٹو اختیار کے تحت دوبارہ زیرِغور لانے کا حکم دے کر مستغیث جج صاحب کو امکانی طور پر پھر سے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا بظاہر بندوبست کر دیا گیا ہے۔ جب عدالتِ عظمیٰ نے سپریم جوڈیشل کائونسل کے دائرئہ عمل سے بالا بالا اپنا اعلیٰ تر عدالتی اختیار استعمال کرتے ہوئے 46 سماعتوں میں سارے کیس کو سُن لیا اور جسٹس قاضی عیسیٰ کی پٹیشن کو اتفاق سے منظور کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس اور جوڈیشل کاؤنسل کے نوٹس کو معطل کر دیا اور جسٹس عیسیٰ کی بیگم کی روداد بھی سُن لی تو انصاف میں دیر کرنے کی بجائے کیوں نہ ایف بی آر کے کمشنر کو بلا کر بیگم قاضی کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کروا کے معاملے کو خوش اسلوبی سے ختم کر دیا جاتا۔

لیکن استغاثہ نے معاملے کو ایف بی آر کو انجام تک پہنچانے کی عدالتِ عظمیٰ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے جس متعین وقت کا تقاضا کیا، اُسے اُس سے زیادہ مل گیا۔ اس فیصلے سے جہاں ٹیکس معاملات میں پانچ برس کی اختتامی مدت کی قانونی حد ختم ہوئی، وہیں پہ 75 روز کی مدت طے کرتے ہوئے، معاملہ پھر سے جوڈیشل کمیشن کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔ حالانکہ عدالتی کارروائی سے یہی ظاہر ہوا تھا کہ بیگم قاضی عیسیٰ اور اُن کے بچے اپنی جائیدادوں کے بارے میں ایف بی آر کی تفتیش میں شامل ہوں گے اور قانون کے مطابق وہ ایپلیٹ ٹرائی بیونل اور پھر اپیل در اپیل کا حق استعمال کر سکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک جج کی بیگم صاحبہ کے ٹیکس معاملات اب سپریم جوڈیشل کے اختیار میں آئیں گے تو کس قانون کے تحت؟ کبھی مورخ یہ تحقیق کرے گا کہ کیسے اور کیوں یہ کیس بنایا گیا اور ایک قابلِ تکریم، ایماندار اور اُصول پرست منصف کو نشانۂ ستم بنایا گیا۔

ہم جمہوریت پسند جو نصف صدی سے زیادہ آزاد اور خودمختار عدلیہ کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اُنہیں ملے بھی تو کیا؟ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار جنہوں نے جمہوری عبور کی دونوں منتخب حکومتوں کو چلتا کیا اور سول انتظامیہ کو عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا اور دوسری طرف ہر طرف بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی رہی۔ اس پر جو جج بولا بھی تو مشقِ ستم کا نشانہ بنا۔

نقاب پوش ڈاکوؤں کے ہاتھوں اپنے گھر کی حقیقی چوری پکڑے جانے کے لیے راقم الحروف نے جانے کون کون سے انتظامی دروازے کھٹکھٹائے لیکن چور ہاتھ آئے نہ مالِ مسروقہ برآمد ہوا۔ اب جب ایک معزز، صاحبِ احترام، صاف و شفاف اور بہادر و ایماندار منصف کو چوروں کے سرغنہ اور سرپرست اُلٹا چور بنانے پہ تل جائیں اور وہ بھی مبینہ ریاستِ مدینہ میں تو کوئی کس کے ہاتھ پہ انصاف کا خون تلاش کرے۔ آخر تاریخ ٹریجڈی اور ڈھونگ رچانے کی بجائے، کب کروٹ لے گی؟ شاید ہم نہ دیکھ پائیں اور کورونا کے ہاتھوں لقمۂ اجل۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے