بلاعنوان

’’ آؤٹ آف بوکس‘‘ کہہ لیں، دیوانے کی بڑ سمجھ لیں ، دور کی کوڑی یا معصوم سی بونگی قرار دے لیں آپ کی مرضی لیکن اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ سلیم شہاب کے اس ’’ملین ڈالر آئیڈیا‘‘کے پیچھے نیت بہت ہی بھلی ہے ۔

اک درد دل رکھنے والا پاکستانی اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے کہ اس کے ہم وطن ٹیکس کو بوجھ نہ سمجھیں ،ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو، قرض کی دلدل سے سلامت نکل آئیں اور خلق خدا مہنگائی کی سولی سے اتر کر سکھ کا سانس لے سکے۔

میں سلیم شہاب کی یہ تجویز من وعن پیش کر رہا ہوں جس کا عنوان ہے ۔’’ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کی ایک تجویز‘‘ لکھتے ہیں ۔’’ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد کافی کم ہے سو ان حالات میں ایک غیر روایتی طریق کار اختیار کرتے ہوئے ٹیکس گزاران کی تعداد میں معقول اضافہ کیلئے یہ سکیم پیش کی جا رہی ہے جس سے بلاجبرواکراہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد 27لاکھ سے 50لاکھ تک بڑھائی جاسکتی ہے ۔

حکومتی ذہن ہے لوگوں کو ’’ٹیکس نیٹ‘‘یعنی ٹیکس کے جال میں لانا، یہ سوچ ہی منفی اور غیر فرینڈلی ہے جبکہ ہماری تجویز انتہائی فرینڈلی ہے ۔دبائو کی بجائے اسے پرکشش بنانا ہی اس خیال کی خوبی ہے ۔

اگر ہم ہر فائیلر سے روزانہ ایک روپیہ اکٹھا کریں تو 27لاکھ ٹیکس گزاران سے 27لاکھ اکٹھا ہوگا جسے انہی 27لاکھ ٹیکس گزاران میں قرعہ اندازی کے ذریعہ کسی ایک ٹیکس گزار کو دے دیا جائے یعنی روزانہ کی بنیاد پر کسی ایک ٹیکس گزار کو 27لاکھ روپیہ دیا جائے اور یہ ’’کھیل‘‘ یا سلسلہ پورا سال جاری رکھا جائے ۔

اس لکی ڈرا سکیم میں حکومت کا پیسہ خرچ نہ ہو گا۔جیسے جیسے ٹیکس گزاران کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، ظاہر ہے انعام کی رقم میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔

27لاکھ ٹیکس گزاران سے رقم کی وصولی (ایک روپیہ روزانہ ) نہ مشکل ہے نہ کسی پہ بوجھ ہوگا۔اس میں یہ بات بھی شامل کی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس پیئر انتقال کر جاتا ہے تو اسی دن اس کا نام لکی ڈرا میں انعام کا حق دار قرار دیا جائے اور اگر ایسے افراد کی تعداد ایک سے زیادہ ہو جائے تو ان کی عمروں کے حساب سے یا رجسٹریشن میں اندراج کے دن سے ان کی سنیارٹی طے کرکے انعام ان سب میں تقسیم کر دیا جائے ۔

یہ سکیم کا خلاصہ ہے جسے ری فائن اور امپرو کیا جاسکتا ہے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ سکیم ہمارے اجتماعی مزاج سے گہری مطابقت رکھتی ہے ۔قارئین !ٹیکس والا مسئلہ تو ’’حل‘‘ ہو گیا ۔

’’ڈاکئیے‘‘ نے ڈاک آگے پہنچا دی لیکن ڈیڑھ سلپ بھی پوری نہیں ہوئی جبکہ میرا کالم تین سلپ پلس ہوتا ہے یعنی میں نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا اس لئے ’’کالے قول‘‘ سے یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کروں گا لیکن اس سے پہلے فادرز ڈے کیلئے WILLIAM WALLALEکی ایک نظم جو دنیا کے ہر باپ کیلئے حسین ترین خراج تحسین ہے۔

THEY SAY THAT MAN IS MIGHTY,HE GOVERNS LAND AND SEAʼHE WIELDS A MIGHTY SLEPTERʼOʼ ER LESSER POWERS THAN HEʼBUT A MIGHTY POWER & STRONGERʼMAN FROM HIS THRONE HAS HURLEDʼFOR THE HAND THAT ROCKS THE CRADLEʼIS THE HAND THAT RULES THE WORLDʼاور اب کچھ ’’کالے قول‘‘جو بہت کچھ جانتا ہے اسے بہت کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔٭٭ ٭ ٭ ٭جسے اپنا ’’بلڈ گروپ‘‘ جاننے کیلئے بھی کسی کا تعاون درکار ہے وہ ’’قابل‘‘ نہیں قابل رحم ہے ۔٭٭ ٭ ٭

٭جہاں محبت، محنت اور مہارت یک جا ہو جائے وہاں معجزے جنم لیتے ہیں۔٭٭ ٭ ٭ ٭محبت کا ’’بارٹر ‘‘ دنیا کی قدیم ترین تجارت ہے۔٭٭ ٭ ٭ ٭کہیں اور جھکنے سے پہلے اپنے گھٹنوں پرجھک جائو۔٭٭ ٭ ٭ ٭پہاڑوں کو ہلانے سے پہلے پتھروں سے سیکھو۔٭٭ ٭ ٭ ٭سورج بلب کی طرح یکدم روشن نہیں ہو جاتا ۔٭٭ ٭ ٭

٭دولت اور سخاوت بدترین سوکنیں ہیں۔٭٭ ٭ ٭ ٭خود سے محبت کرنے والے کا کوئی رقیب نہیں ہوتا۔٭٭ ٭ ٭ ٭آنکھوں میں آنکھیں ڈالو نہ ڈالو لیکن بانہوں میں بانہیں ڈالے بغیر ہم کہیں نہ پہنچ پائیں گے۔٭٭ ٭ ٭ ٭اگر ہم دونوں نے ہر بات پر متفق ہی ہونا ہےتو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔٭٭ ٭ ٭

٭بھروسے کے قابل صرف وہی ہے جو اپنے خالق پر بھروسہ کرتا ہے ۔٭٭ ٭ ٭ ٭جو خطرہ بھانپ لیا گیا، سمجھو آدھا بھی نہیں رہ گیا۔٭٭ ٭ ٭

٭عورتیں عموماًمردوں جتنی کامیاب نہیں ہوتیں کیونکہ انہیں مشورہ دینے کیلئے ان کی بیویاں نہیں ہوتیں۔٭٭ ٭ ٭ ٭خدا کی طرف دیکھنے والے کبھی کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں سکتے ۔٭٭ ٭ ٭ ٭خون اور پسینے میں صرف رنگ کا فرق ہے۔٭ ٭ ٭

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے