مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

اس میں شک نہیں کہ زندہ زبانوں میں ہمیشہ نئے الفاظ کا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ایسی زبانیں جن کے بولنے والے کسی نہ کسی وجہ سے کسی دوسری زبان کے بولنے والوں کی غلامی میں آجائیں(یہ غلامی عملی، ذہنی، فکری، سیاسی، تعلیمی کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے) تب بھی اُن میں نئے الفاظ زیادہ تیزی سے داخل ہوتے ہیں جیسے مثال کے طور پر ہمارے علاقے میں برٹش راج اور اُس کے قائم کردہ نظامِ تعلیم، عدلیہ اور انتظامیہ میں انگریزی زبان اور اس کی اصطلاحات کا برِصغیر میں بولی جانے والی تمام چھوٹی بڑی زبانوں پر کم یا زیادہ اثر پڑا ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے مشترکہ کلچر کی ترجمان اُردو زبان ہی ہوئی ہے کہ نہ صرف یہ زبان سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی تھی بلکہ اس کا لِساّنی ڈھانچہ بھی کچھ ایسا تھا کہ یہ نئے الفاظ کو چاہے وہ خارجی ہوں یا مقامی اپنے اندر شامل کرنے اور اُن کی اصوات کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی ایک ایسی صلاحیت رکھتی تھی جو اپنی مثال آپ ہے ۔

مغلیہ دور کی فارسی کے بعد تعلیمی اور دفتری زبان ہونے کی وجہ سے انگریزی میں دسترس حاصل کرنا اعلیٰ ملازمتوں کے لیے لازمی ٹھہرا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر شائد دنیا کا وہ واحد علاقہ بن گیا جس میں کسی غیر ملکی زبان جاننے والوں کی تعداد بعض صورتوں میں اُس کی اپنی اصلی اور مقامی زبانوں کے بولنے والوں سے بھی بڑھ گئی اورا س کے ساتھ ساتھ تمام مقامی زبانوں بالخصوص اُردو میں انگریزی الفاظ اس طرح سے شامل ہوتے چلے گئے کہ ایک کورا اَن پڑھ آدمی بھی ان کو اس بے تکلفی سے استعمال کرنے لگا جیسے یہ اُس کی اپنی زبان کے الفاظ ہوں مثال کے طور پر ایک دیہاتی جس نے اسکول کی شکل بھی نہ دیکھی ہووہ اس طرح کا جملہ روانی سے بول سکتا ہے۔

’’کل میں ٹیشن(اسٹیشن) پر گیا پلیٹ فارم لیا پتہ چلا کہ ٹرین پلیٹ فارم نمبر تین کے بجائے پانچ نمبر پر آئے گی وہاں پہنچا تو سنگل(سگنل) ڈاؤن تھا اور ٹرین اپنے ٹائم پر تھی قُلیوں نے ہر طرف رَش ڈالا ہوا تھا بہت سی پبلک کالی وردی والے ٹی ٹی کو گھیرے کھڑی تھی‘‘
اس کا ایک جواز تو یہ ہوسکتا ہے کہ چونکہ ان متذکرہ بالا الفاظ کا تعلق ایک مخصوص شعبے ، ماحول اور صورتحال سے ہے اس لیے ان کا ہماری عام گفتگو کا حصہ بننا ایک فطری عمل ہے اسی طرح سے ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ اور استعمال کے باعث ہماری آج کی نسل کا بیشتر حصہ ایسے بے شمار الفاظ روانی سے بولتا ہے جن میں سے بیشتر کے اُسے معانی اور ہجے بھی شائد ٹھیک طرح سے معلوم نہیں ہیں اس پر پوری دنیا اب ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کے باعث جدید ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ الفاظ کو ترجمے کے بجائے اُن کی اصل شکل میں بولنا نہ صرف ضروری ہوگیا ہے بلکہ یہ زیادہ بہتر بھی ہے۔

یہاں تک تو نظریہ ضرورت کے تحت غیر ملکی بالخصوص انگریزی زبان کے الفاظ کے استعمال کی وجہ سمجھ میں آتی ہے مگر عملی طور پر ہم نے اپنی عام بول چال بلکہ لکھت پڑھت میں بھی ایک ایسی غلامی زدہ آزادہ روی اختیار کرلی ہے کہ ہم اُن الفاظ کی جگہ بھی انگریزی متبادلات کا استعمال کرتے ہیں جو بہت بہتر اور مکمل معنویت کے ساتھ اُردو میں نسبتاً بہت زیادہ مگر دیگر قومی زبانوں میں بھی افراط کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

اب اس بات کے دو رُخ ہیں ایک تو یہ کہ اگر ہم تھوڑی سی محنت اور غوروفکر کریں تو ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی سے متعلق تقریباً پچاس فیصد الفاظ اور اصطلاحات کے مناسب اور با معنی ترجمے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے مسئلہ صرف اُن کو ایک ایسی شکل دینے کا ہے جو آسان اور سب کے لیے قابلِ قبول ہو گزشتہ دنوں برادرم عرفان جاوید نے ایسے بہت سے ممکنہ تراجم کا ذکر بھی اپنے ایک مضمون میں کیا تھا لیکن ایک لمحے کے لیے ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ اصطلاحات اور نئی ایجادات سے متعلق اشیاء کے ناموں کا ترجمہ نہ کرنا اس کے آدھے ادھورے ترجمے کرنے سے بہتر ہے اور یوں ہم اپنے نام نہاد عالمی گاؤں میں بھی زیادہ اچھے طریقے سے معلومات کا تبادلہ کرسکتے ہیں یہاں یہ اشار ا کرنا ضروری ہے کہ ایسے جدید غیر ملکی الفاظ جن کے آسان اور بہتر متبادلات ہماری یعنی زبان یا زبانوں میں موجود ہیں اُن کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے کہ یہاں مسئلہ غلامی کا نہیں بلکہ خوئے غلامی کا بن جاتا ہے ۔

اس بات کا دوسرا حصہ زیادہ پریشان کن ، توجہ طلب اور لائقِ اصلاح ہے اور وہ یہ کہ گزشتہ پندرہ بیس برس میں ہم نے اپنے صدیوں سے مستعمل خوبصورت اور بامعانی الفاظ کی جگہ بھی انگریزی کے ایسے الفاط بولنا اور لکھنا شروع کر دیے ہیں جو اپنے معانی کی ترسیل میں عام طور پر اضافے کے بجائے کمی پیدا کرتے ہیں یہ ایک ایسی روش ہے جو نہ صرف مذّمت کے قابل ہے بلکہ تعلیمی نصابات ، میڈیا ، عام بول چال اور عملی اصطلاحات کے طور پر ان کے استعمال کو ہرسطح پر ردّ کیا جانا چاہیے۔

دیکھنے، پوچھنے اور روکنے والی بات یہ ہے ان لفظوں کو ایک مخصوص ایجنڈے اور ایک خاص طبقے کی آمرانہ ذہنیت کی وجہ سے ہوا دی جارہی ہے اور بغیر کسی وجہ سے اپنی زبان اور تہذیب کی نفی کی جارہی ہے اب مثال کے طور پر کوئی پوچھے کہ لفظ ’’استاد‘‘ میں کیا کمی تھی جو اس کی جگہ ’’ٹیچر‘‘ کو دی جارہی ہے اسی طرف طالب علم کو اسٹوڈنٹ ، والدین کو پیرنٹParent، چھٹی کو لیوLeave، موسم کو Weather، مہینے کو Month، درخواست کو Application، اخبار کو نیوز پیپر، خبرنامے کو نیوز بلیٹن ، تازہ خبر کو بریکنگ نیوز ، روشنی کو لائٹ اور اسی طرح کے ہزاروں الفاظ کی جگہ زبردستی اور خوامخواہ محض فیشن کی خاطر کسی غیر زبان کے الفاظ لانا صرف اور صرف جہالت اور احساسِ کمتری ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔

اس روّیئے کی مزید سیکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر فی الوقت صرف مسئلے کی نشاندہی پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کہ گزشتہ کئی کالموں کی طرح آج بھی کچھ ایسے اصحاب کا ذکر بہت ضروری ہے جو گزشتہ تین دنوں میں ہم سے جدا ہوگئے ہیں، اس میں دینی شعبے کے دو اہم لوگ مفتی نعیم اورعلامہ طالب جوہری کے علاوہ ادب کی دنیا سے منظر ایوبی اور میدانِ سفارت سے گُل حنیف صاحب کا ذکر بہت ضروری ہے جن سے پہلی اور بے حد خوشگوار ملاقات دوحہ قطر میں ہوئی تھی۔

اسی طرح ہماری عزیز دوست اور ہم عصر افسانہ نگار ڈاکٹر طاہرہ اقبال کے سمدھی بھی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں، چند دن قبل ہمارے محترم دوست اور ماہرِ تعلیم انوار احمد زئی بھی اسی وبا کا شکار ہوگئے تھے، یہ سب کے سب بہت قیمتی لوگ تھے اور اپنے اپنے شعبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب کہ علامہ طالب جوہری ایک بے مثال ذاکر ہونے کے ساتھ ساتھ ادب اور شعر کے حوالے سے بھی ایک بہت بڑا نام تھے اور بہت سی اعلیٰ خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان سب مرحومین میں وہ بات بھی مشترک تھی جس کی طرف میں نے خاص طور پر اشارہ کیا ہے کہ یہ سب اُردو اور اپنی دیگر قومی زبانوں کے نہ صرف ماہر تھے بلکہ اپنی گفتگو میں اُس طرح کے بلا ضرورت انگریزی الفاظ اور متبادلات کے استعمال سے بھی ہر ممکن گریز کرتے تھے جن کی وجہ سے آج ہم ماں باپ، بہن بھائی اور دوستوں تک کو بھی مدر، فادر، سسٹر ، برادر اور فرینڈ ز کہنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے