پولیس کی شلوار اتر گئی

سوشل میڈیا پر اٹھارہ سیکنڈ کی ایک ویڈیو نظر سے گزری، اٹھارہ گھنٹے ہونے کو ہیں، دماغ میں اب تک ہلچل ہے، وحشت اور تذلیل سے لبریز مناظر پر مشتمل یہ ویڈیو ہمارے پولیس کی بہتر سالہ سیاہ تاریخ کا خلاصہ ہے، پولیس سے اعتبار اور نظام پر اعتماد تو پہلے ہی اٹھ گیا تھا، اب تو لگتا ہے انسانی شرافت کا جنازہ بھی اٹھ گیا ہے، بڑے دھوم سے اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ۔

خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں حکومت کا ایک محکمہ ریاست کے ایک شہری کو گالیاں دینے پر گرفتار کرتی ہے، تشدد کے بعد شلوار اتار کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کرتی ہے، ظلم کی حد ہے اور سفاکی کی انتہا، یہ ہمارے اس مہذب پختونخوا کی شریف پولیس ہے، جن کی شرافت کی گواہی ہمارے صادق اور امین وزیر اعظم بھی دے چکے ہیں، باقی ملک کو اسی پر قیاس کرلیں۔

ویڈیو کے آغاز میں سیاہ وردی میں ملبوس ایک سیاہ دل پولیس والے کی پشت نظر آرہی ہے، باقی جو کچھ نظر آرہا ہے وہ ہمارے قوم کی اُتری ہوئی اجتماعی شلوار ہے یا پھر قانون کی رکھوالوں کی جائے غلاظت، جنگل کے وحشی درندوں کی طرح کچھ سفاک آوازیں ہیں، جو کسی شکار کو گھیر لیتے ہیں، بے حس، بے رحم، بے شرم اور بے حیا درندے، جو اپنی خباثت پر چیخ رہے ہیں۔

دس برس قبل کی بات ہے، تیونس میں اپنی بیوہ ماں، بیوی اور چھ بچوں کا پیٹ پالنے والے چھبیس سالہ محمد بو عزیزی سے پولیس نے لائسنس نہ ہونے پر اس کی ریڑھی چھین لی، پولیس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے طمانچے بھی مارے، غربت کے مارے بوعزیزی کی عزتِ نفس مجروح ہوئی، تو اس نے حکومتی عمارت کے سامنے جاکر اپنے آپ کو آگ لگا دی، اس آگ نے عرب دنیا کے تمام سیاہ چہروں کے نقاب جلا کر انہیں ننگا کردیا۔

بوعزیزی کی المناک موت نے عرب دنیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کی آگ لگا دی، آگ کی ان چنگاریوں سے عرب بہار کی احتجاجی تحریک نے جنم لیا، جس نے تیونس کے زین العابدین، مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی اور یمن کے علی عبداللہ صالح سمیت متعدد شاہوں کے تخت الٹ دیے، آگ کے یہ اثرات سعودی اور شام تک بھی پہنچے، بہت سے تاج ابھی عوام کی ٹھوکر سے اچھالے جانے باقی ہیں۔

پاکستانی پولیس کی ویڈیو میں کچھ لوگ قیدی کے اردگرد منڈلا رہے ہیں، مردار خور گِدھوں کی طرح، شرم و حیا سے خالی یہ پولیس اہلکار درحقیقت شیطانی کارندے ہیں، مجرم کو ننگا کرکے پولیس نے اپنے پورے نظام کو ننگا کردیا ہے، سوال یہ نہیں کہ قیدی مجرم تھا یا نہیں؟ اگر وہ مجرم تھا بھی تو کیا قانون میں پولیس کے پاس تذلیل کا حق ہے؟ کوئی قانون ہے، نہ کہیں انصاف۔

جارج فلائیڈ ایک سیاہ فام امریکی تھا، ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں اس کی مظلومانہ قتل کے بعد امریکہ میں شروع ہونے والا احتجاج پورے یورپ میں پھیل گیا، اس ایک قتل کی حرمت میں سینکڑوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دی اور پھر سیاہ فام جارج فلائیڈ سیاہ دل پولیس کی دہشت اور وحشت کے خلاف احتجاج کی عالمی علامت بن گیا۔

جارج فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد صرف چند منٹوں کے اندر پوری دنیا میں پھیل گئی، پولیس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے جارج فلائیڈ کی گردن پر پولیس اہلکار نے اپنا گھٹنا مسلسل دبائے رکھا، دم گھٹنے کے باعث اس کی موت ہوگئی، مرتے دم ”میرا دم گھٹ رہا ہے“ کے تکرار سے پوری انسانیت کی روح تڑپ اٹھی، پولیس کے خلاف سلگتی نفرت کی آگ بھڑک اٹھی جس کی لپیٹ میں پورا امریکہ آگیا۔

ہمارے ملک کی پولیس گردی ،مسلسل دہشت گردی کو فروغ دی رہی ہے، کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے، ہم نے یہاں بھی پولیس کی ظلمت کا راج دیکھا، چوہدری اسلم کی چوہدراہٹ تھی تب بھی ظلم کا بازار گرم تھا، راؤ انور آئے تب بھی سابقہ ظلمت کا راج رہا، ہر نئے آنے والے نے اپنے سابقہ ریکارڈ توڑ دئے، راتوں کو جوان اٹھائے جاتے اور دن کو ان کی لاش کسی ویرانے سے وصول ہوتی۔

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں بے گناہ لوگ پولیس کے ہاتھوں حوالات میں تشدد، جیل میں اذیت اور جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں، کوئی خوف کے مارے احتجاج کی جرات بھی نہیں کر پاتا، جو تھوڑے بہت لوگ احتجاج کی ہمت کر بھی پاتے ہیں، ان کی عیدیں مسلسل وعدوں اور وعیدوں کے بیچ گزرتی ہیں، خوشیوں سے دور، تنہا، خوفزدہ اور غمزدہ۔۔۔

قوم عادی ہوچکی ہے، ظلم کا ہر تازیانہ دیکھ لیا، سفید ریش بزرگوں کا بہتا ہوا خون، نوجوانوں کی خاک آلود داڑھیاں، معصوم بچوں کی فلک بوس چیخیں اور پردہ دار خواتین کی تار تار چادریں، قوم کے محافظ اداروں نے چادر کے تقدس کا خیال رکھا ہے نہ چاردیواری کی حرمت کا، ہر ناکے پر بھتہ، ہر چوک پر رشوت اور ہر گزرتی گاڑی سے شرارت اس کے علاؤہ ہیں۔

ساہیوال میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جانے والے خاندان کو گولیوں سے بھون دیا گیا، ماں، باپ اور بہن کی لاش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بچ جانے والے معصوم بچوں کے ذہن میں ہمارے پولیس کی تصویر کیا ہوگی؟ یہ خیال آتے ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، یہ معصوم بچے ہمارا مستقبل ہیں، ہمارا مستقبل ہمارے اپنے اداروں کے کرتوتوں سے پریشان، حیرت زدہ اور خوفزدہ ہے۔

پاکستان میں عوام ظلم سہتے ہیں، احتجاج کی ہمت مگر نہیں کر پاتے، جبر و تشدد برداشت کرتے ہیں، بغاوت کی جرات مگر نہیں کر پاتے، ہمارے ہاں مظالم ہمیشہ سے منظم ہوتے ہیں اور احتجاج کھبی کھبار، وہ بھی غیر منظم، عدمِ تشدد کا مطلب ظلم پر خاموشی نہیں، پر امن احتجاج ہے، ریاست سے وفاداری کا مطلب ریاستی مظالم کی پردہ پوشی نہیں، روک تھام کی کوشش ہے۔

مسلسل تشدد نے ہمارے معاشرے کے اجتماعی شعور کو منفیت میں تبدیل کیا ہے، ہم اس منفیت کے ساتھ مثبت تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں، یہ تبدیلی محض ایک سراب ہے، ہمارے ہاں مگر اس سراب کا نشہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے، پولیس اپنی شلوار خود اتار چکی ہے، سیاہ وردی اتارنے کے لئے بس ایک آہنی پنجہ چاہیے، قمیض تار تار ہوگی اور ظلم رسوا سرِ بازار۔

سوال مگر یہ ہے کہ احتجاج کی ہمت کون کرے اور قیادت کون؟ ہماری سیاسی قیادت خوفزدہ ہے، سیاسی کارکن دہشت زدہ، دانشور مایوس اور فلاسفر خاموش، جمہور غمزدہ ضرور ہیں مگر خوفزدہ بھی، بقولِ واصف علی واصف ”موت سے زیادہ خوفناک موت کا ڈر ہے،“ زندگی حرکت کا نام ہے، موت سے لڑنے کے لئے حرکت ضروری ہے، پُر امن اور منظم حرکت۔

استاد احمد جاوید نے بجا کہا ہے، ”جمہوریت ہو یا آمریت، بھیڑوں پر بھیڑیے ہی حکومت کرتے ہیں.“ ہماری ریاست بھیڑوں کا گلہ ہے اور ہمارے محافظ خونی بھیڑیے، جمہوریت، جمہور سے ہے اور جمہور عوام ہیں، مقتدر قوتیں خوابِ غفلت میں ہیں، اس نیند کو توڑنے کے لئے ایک زوردار آواز کی ضرورت ہے، جو ظلم و استبداد کی ہر دیوار کو ہلا دے، عدل کو جگا دے اور مجرم کو سزا دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے