سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کا ذمہ دار اس کا باپ ہے

سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے ذمہ دار اس کے گھر والے، اس کا باپ ہے، جنھیں ایک ناکام سوشانت قبول نہیں تھا۔

سوشانت مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مڈل کلاس کے لیے زندگی کا سب سے بڑا اور بنیادی مقصد و محور ان کا کیرئیر ہوتا ہے۔ ان کی اور ان کے مالی سٹیٹس کی بقا کا انحصار ان کے کیریر پر ہوتا ہے۔ اپنی ہی کلاس کے لوگوں کے ساتھ ان کی مستقل مسابقت انھیں مسلسل مہیز کیے رکھتی ہے کہ کیرئیر میں وہ بہتر سے بہتر اور اعلی سے اعلی مقام پر پہنچیں۔ ان کی محرومیاں، حسرتیں اور ہم جلیسوں سے ان کا حسد ان کے بچوں پر بھیانک بوجھ پر گرتے ہیں۔

تعلیم ان کے نزدیک ان کے کیرئیر اور اس کے ذریعے سے برتر مقام کے حصول کا زینہ ہوتی ہے۔ یہ رسک نہیں لیتے اور اگر لے لیں تو ان کی جان پر بنی رہتی ہے۔ ناکامی انھیں کسی صورت برداشت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ کس طرح ان کے طعنے سہیں گے۔

امرا کے بچے ایک چیز میں ناکام ہوں ہوتے ہیں تو ان کے لیے دوسری امکانات روشن ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خود کشی کرنے والے ہزاروں طلبہ میں امرا کے بچے شامل نہیں ہوتے، یہ خود کشی کریں بھی وہ وجہ کیرئیر بہرحال نہیں ہوتی۔ غربا کے بچوں کا کوئی کیریر ہی نہیں ہوتا۔ وہ جو کرتے ہیں زندہ رہنے کی تگ و دو میں کرتے ہیں اور خود کشی صرف تب کرتے ہیں جب زندہ رہنے کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔ کیریر میں ناکامی ان کا مسئلہ نہیں ہوتا۔

سوشانت ایک نہایت ٹیلنٹد لڑکا تھا ۔ مڈل کلاس میں زیادہ ٹیلنٹڈ لڑکا پیدا ہونا بھی ایک المیہ ہوتا ہے۔ اس سے اس قدر توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں کہ وہ ہمیشہ دباؤ اور تناؤ کا شکار ہی رہتا ہے۔

پھر ناک کی سیدھ میں منتخب کیے ہوئے راستے سے ایسے کسی بچے کا ہٹنا قیامت خیز دھماکا ہوتا ہے ، جو سوشانت کے اندر ودیعت کردہ آرٹسٹ نے اس وقت کرنے کی جسارت کی جب وہ انجینئیر بننے سے صرف دو سمسٹر پیچھے تھا۔ اس فیصلے کا کتنا بوجھ اس کے کاندھوں پر تھا یہ ہر مڈل کلاس نوجوان سمجھ سکتا ہے۔

دہلی کالج آف انجیئرنگ میں داخلہ انڈیا میں ایک بہت بڑا تعلیمی معرکہ ہوتا ہے۔ سوشانت نے اس کے داخلہ امتحان میں پورے انڈیا سے ساتویں پوزیشن لی تھی۔ وہ National Olympiad Winner in Physics بھی تھا۔ اس کم عمری اور شوبز کی دنیا کی چکاچوند میں بھی وہ ایک دانش ور تھا۔ اس کے انٹرویو کا یہ اقتباس دیکھیے جس میں وہ کہتا ہے کہ تعلیمی دور میں تمام پوچھے گئےسوالوں کا جواب دینے کی جستجو آپ کے فہم کو محدود کردیتی ہے۔ سوال پوچھیے تاکہ آپ جان سکیں اور سیکھ پائیں۔

I was always told to answer all the questions asked by teachers as it is a way of measuring intelligence. However, my advice to you is that only answering questions limits your understanding, ask questions to gather better information and learn more.

یقینی زندگی جینا اوسط سطح کے لوگوں کا خواب ہوتا ہے، جب کہ غیر معمولی لوگ غیر یقینی زندگی جینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہر دم غیر متوقع لمحات میں اپنی قابلیت کے جوہر آزما سکیں۔ یہی بات ایک انٹرویو میں سوشانت نے کہی تھی:

“The only reason we are excited about the next level is just because it is unknown. So, ‘not knowing’ what is going to happen, using your skill, and enjoying what you do is my secret.”

اوسط درجے کے ذہن، قابلیت اور توانائی رکھنے والوں کو غیر معمولی لوگوں کی یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ اس لیے وہ ان کو کولہو کے بیل بنانے کی سمجھ داری کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے غیر معمولی لوگ جب اپنے ایڈنچر میں ناکام ہوتے ہیں تو کولہو کے بیل ان کی ناکامی کو اپنی کامیابی اور ان کی قسمت کی نامہربانی کو اپنی دانائی تصور کرتے ہیں۔ یہ موقع ہوتا ہے جب وہ بیک لیش کرتے ہیں۔

سوشانت کو اس کے مڈل کلاس طبقے نے باور کرایا تھا کہ کیرئیر انسان سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ کیرئیر نہیں تو کچھ نہیں، کامیابی نہیں تو کچھ نہیں۔ چنانچہ اس کا کیرئر خطرے میں پڑا تو وہ مرگیا اور پھر اس نے خود کو بھی مارڈالا۔ فلموں میں جب اس کے قدم ابھی ڈگمگا رہے تھے تو سوشانت کا باپ اس سے یہی کہتا تھا کہ ڈگری مکمل کر لیتے تو اچھا تھا۔ بلکہ یہ بھی کہتا کہ وہ ہیرو نہیں لگتا۔

ڈگری سے متعلق بات کرتے ہوئے سوشانت ہمیشہ تناؤ کا شکار ہو جاتا تھا اور یہ چیز اس کے انٹرویوز میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سوشانت نے ایک انٹریو میں بتایا بھی کہ وہ خواب میں خود کو دہلی کالج آف انجیرنگ میں ہی دیکھتا ہے جہاں اس نے بڑی محنت سے داخلہ لیا تھا۔ مگر اسے اپنے سپنے جینے کی سزا ملی۔ اس سزا کو بانٹنے کےلیے اس کےگھر والے اس کے ساتھ نہیں تھے۔

اس کی ماں نہیں تھی، مگر باپ زندہ ہے۔ مڈل کلاس باپوں کو اپنے بیٹو ں کا سہارا بننے کی بجائے، انھیں اپنا سہارا بنانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے باپ نے پوری زندگی دیکھ رکھی تھی،اسے معلوم تھا دنیا میں ہمیشہ انصاف نہیں ملتا۔ زندگی امتحان لیتی ہے۔ مگر شاید اس نے اسے یہ یقین نہیں دلایا تھا کہ جس طرح وہ ایک کامیاب بیٹے کی پیٹھ کو فخر سے تھپکتا ہے، ایک ناکام بیٹے کو بھی گلے لگا سکتا ہے، اس کا ماتھا چوم کر اسے بتا سکتا ہے کہ بیٹا کوئی بات نہیں مسئلے کا حل نکال لیں گے اور اگر کچھ نہ ہوا تو جینے کے اور راستے بہت۔

بچوں کو بتائیے اور یہ احساس دلائیے کہ وہ کیرئیر ضرور بنائیں مگر کیرئیر ہی سب کچھ نہیں، کیرئیر سے قیمتی وہ خود ہیں۔ آپ کو اپنا ناکام بیٹا بھی اتنا ہی پیارا رہے گا جتنا ایک کامیاب بیٹا۔ بیٹا نکما نہیں، تو قسمت کی مارے کو مرنے سے بچانا گھر والوں کا کام ہے، باپ کا کام ہے۔ مڈل کلاس باپ ہوش کے ناخن لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے