کرونا وائرس | سوشل میڈیا | مس انفارمیشن

سوشل میڈیا کمپنیز نے ہمیشہ دعوی کیا ہے کی غلط انفارمیشن کےخلاف اقدامات کرنا انکے اولین فرائض میں ہےلیکن حالیہ ریسرچ کے مطابق جب ان کمپنیز کو متعلقہ رپورٹس کی نشاندہی کروا بھی دی جاتی ہے تو کوِئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا جاتا۔

روزین پالمر ،ڈائیریکٹر "ریسٹ لیس ڈیولپمینٹ "کا کہنا ے کہ نوجوان طبقے نے غلط معلومات کے خلاف آواز اٹھائی مگر سوشل میڈیا فرمز نے انکی حوصلہ افزائی نہیں کی۔

"سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل حیٹ” کی حا لیہ رپورٹ کے مطابق بڑی سوشل میڈیا فرمز کے جھوٹی خبروں کو روکنے کے خلاف اقدامات کی یقین دہانی کے باوجود کرونا وائرس سےمتعلق سیکڑوں غلط معلومات اب بھی انٹرنیت پہ موجود ہیں۔ کرونا وائرس کاغلط علاج،ویکسین کے خلاف پروپگینڈا اور 5جی کے حوالے سے سازشی تھیوریز پہ مشتمل 649 پوسٹس کو فیس بک اور ٹویٹر کو رپورٹ کیا گیا.
رپوٹ کی گئی پوسٹس میں 90 فیصد مواد اب بھی آن لائن دستیاب ہے۔

لیکن اس کے برعکس فیس بک کے ترجمان کے مطابق مارچ اور اپریل میں کرونا وائرس سے متعلق90 ملین پوسٹس کو وارنگ دی گئی جن کو 95 فیصد لوگ نہیں دیکھ سکے۔

ٹویٹرکے ترجمان بھی ادارے کے کارکردگی سے مطمئین ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک ٹویٹ پہ نوٹس لینا ممکن نہیں ہے لیکن 4 اعشاریہ تین ملین اکاؤنٹس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔

"سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل حیٹ” کے سربراہ کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیز اپنی ذمے داریوں سے بھاگ رہی ہیں اور انکےمس انفارمیشن کو روکنے کا سسٹم ،مقصد کو پورا نہیں کرتا۔

ان اہم حقائق کو تفصیل سےبیان کرنے کا مقصد سوشل میڈیا کو مزید منظم کرنے کے لئَے آواز اٹھنا ہے۔عوام میں اندھا دھند اور بغیر سر پیر کے خبروں پہ یقین کرنے کا رجحان موجود ہے۔ اس لیے مواصلاتی اداروں کی چوکنا رہنے اور پوری تحقیق کرنے کی زمے دار ی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

ساری دنیا کرونا وائرس کی ویکسین کے لئیے کوشاں ہے ۔ تمام ممالک کےلئے یہ یکساں چیلنج ہے۔ان حالات میں فیک نیوزاور غلط معلومات کا پھیلنا مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

اسپرین کو پانی میں ملا کے پینا ،سپلیمنٹس کا استعمال اور آئے دن نت نئی ادویات کے نام سامنے آنا اور پھر انکا مارکیٹ میں مہنگا یا غائب ہو جانا۔ یہ سب تب ہوتا ہے جب ملک منظم طور پہ نہیں چلائے جاتے بلکے ریوڑ کے طر ح ہانکے جا تے ہیں۔

ایسے دور میں جب غلط اور در ست خبروں تک رسائی کسی کے لیے ناممکن نہ ہو تو غلط خبروں کو روکنا کرونا وائرس کو روکنے سے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔

ایران میں 27 لوگوں نے کورونا سے بچنے کے لیے الکحل کا استعمال کیا تاہم پھر بھی زندہ نہ بچ سکے، سنا مکی کے غیر آزمودہ ٹوٹکوں سے کتنے لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچا۔ نام لینا مناسب نہیں لیکن آپ سب کو ایک نامور ٹی وی ایکٹریس کا انٹرنیٹ پہ وائرل ہونےوالا ویڈیو کلپ یا د ہوگا جس میں انکا کہنا تھا کہ انکے والد کا انتقال ،کرونا پازیٹو ہونے کے بعد سنا مکی کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوا اور ظاہر ہے بغیر کسی تحقیق کے ،سنے سنائے علاج کا متوقع نتیجہ یہی ہوسکتاہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں جھوٹ اور سنسنی کو سچ اور تحقیقق سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ایسا کرنا ،معذرت کے ساتھ ہم میں سے بیشتر کے خمیر میں شامل ہے۔اس دور میں سمارٹ فون کا استعمال اور خرید کسی کے لیے بھی ناممکن نہیں،اور اس کے ساتھ جو سب سے بڑا خطرہ نذر انداز ہو رہا ہے ،وہ ہے عوام کا سوشل میڈیا کے ذریعےپھیلائی جانی والی مس انفارمیشن”پہ یقین ۔

مس انفارمیشن ایسی انفارمیشن ہوتی ہے جو لوگوں کے کسی بھی خبر پہ یقین کرنے کے عادت کی وجہ سے پھیل جاتی ہے اور ڈس انفار میشن ایسی غلط معلومات ہوتی ہے جو جان بوجھ کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھلائی جائے ۔ کرونا وائرس سے بچاؤ کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ، غیر منظم سوشل میڈیا پالیسیز اور متعلقہ صارفین کے مالی مفادات بھی ہیں۔

کنگز کا لج لندن کی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ غیر منظم سوشل میڈیا صحتِ عامہ کے لیئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ یہ فرمز غلط معلومات کے پھیلاؤ سے پیسہ بھی کماتے ہیں۔ اور مس انفار میشن کی روک تھام کے لیے جو اصول بنائے جاتے ہیں ان پہ غیر مر بوط طریقے سے عمل بھی کیا جاتا ہے۔ سائیکا لوجیکل میڈیسن جرنل میں مزید کہا گیاہے کہ جو لوگ سازشی تھیوریز پہ یقین کر رہے ہیں وہ بار بار ہاتھ نہیں دھوتے اور سماجی دوری بھی اختیار نہیں کرتے۔

ٹی وِی ، ریڈیو، میگزینز اور اخبار پڑھنے والا طبقہ وائرس سے بچائو کے تمام حفاظتی اقدامات پہ عمل کرتا ہے اور وبائی امراض کو سنجیدگی سے بھی لیتا ہے۔مختصر بات یہ ہے کے سوشل میڈیا کی غلط معلومات آپ کے لیے اور پورے معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔

برطانیہ میں براڈ کاسٹ میڈیا کا قانونی طور پہ ضابطہ کار بنایا گیا ہے جس کی نگرانی "آف کام” نامی ادارہ کرتا ہے۔ جب کہ بڑے اخبارات آئی۔پی،ایس۔او کے تحت رضاکارانہ طور پہ ضابطہ کار پہ عمل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک میں سول لائبلیٹی ایکٹس کے اطلاق سے غلط خبروں کی پھیلاؤ کو روکا جاتا ہے۔

جب مشہور یو ٹیو بر ڈیوڈ آ ئک اور برین روز نے کرونا وائرس سے متعلق نقصان دہ معلومات پھیلائی توان کو کسی بھی طرح کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی فوری طور پہ یوٹیوب نے ان کے خلاف کاروائی کی ،،، لیکن اس کے بر عکس جب ایسا ہی نقصان دہ مواد لندن لائیو ٹی وِ ی پہ نشر ہوا تو آف کام نے فوری ایکشن لیا۔ اس کے بعد سی۔سی۔ڈی۔ایچ کی مدد سے آئک کا چینل یوٹیوب سےبین کیا گیا مگر برین روز آج بھی کرونا وائرس بارے میں عوام میں انتشار پھیلا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پہ صرف "سیلف ریگولیشن” کے تحت اعتبار نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ مواصلاتی نیٹ ورک سے زیادہ یہ فرمز چھاپے خانے بن چکے ہیں جن پہ جھوٹ سچ کچھ بھی شائع کریں تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

سوشل میڈیا کو کسی بھی باضابطہ قانون کے تحت نہ چلانا ، آزادی اظہار رائے کی کوئی خاص خدمت نہیں بلکہ بد نظمی اور فیک نیوز کا دوسرا نام اب سوشل میڈیا بنتا جا رہا ہے. حقِ آزادیِ رآئے کا مطلب جھوٹ سے منافع کمانے کا لائسنس نہیں ہے۔ ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے