خوش قسمت وزیراعظم، بدقسمت عوام

عمران خان بڑے خوش قسمت ہیں۔ 2018کے انتخابات میں اُنہیں سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی لیکن وہ بڑی آسانی سے وزیراعظم بن گئے۔ آج بھی قومی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن موجود ہے لیکن عمران خان کو اہم قانون سازی یا بجٹ کی منظوری میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

خواجہ محمد آصف ہوں یا شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ہوں یا بلاول بھٹو زرداری، عبدالقادر پٹیل ہوں یا سید نوید قمر، یہ سب قومی اسمبلی میں تقریریں تو بڑی زور دار کرتے ہیں لیکن جب بھی اِس اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانا ہوتی ہے اُس کے ووٹ پورے نہیں ہوتے۔

پچھلے سال حکومت کو بجٹ پاس کرانے میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ اس سال حکومت کے وزراء اپنے ناراض اتحادیوں اور ناراض ارکانِ اسمبلی کی منت سماجت کرتے رہے۔ حکومت کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

جو بھی خطرہ تھا اندر سے تھا۔ بی این پی مینگل نے حکومت کو خدا حافظ کہا تو خیال تھا کہ وہ دو تین دن بعد واپس آجائیں گے لیکن سب اندازے غلط ثابت ہو گئے۔ حکومت شاہ زین بگٹی کو منانے میں کامیاب ہو گئی، مسلم لیگ (ق) اور اسلم بھوتانی کے ووٹ بھی لے لئے لیکن جب بجٹ پاس ہوا تو حکومت کے صرف 160ووٹ تھے۔

مجھے حکومت کے ایک رکن نے کہا کہ بی این پی مینگل کی ناراضی کے بعد اپوزیشن کے ووٹوں کی تعداد 162ہو چکی تھی لیکن اپوزیشن کے 119ارکان قومی اسمبلی میں موجود تھے۔

اگر اپوزیشن چاہتی تو بجٹ سیشن میں حکومت کیلئے کافی مشکلات کھڑی کر سکتی تھی لیکن صاف نظرآ رہا تھا کہ عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کرنے والی اپوزیشن نے شور تو بہت مچایا لیکن ایوان میں اپنے 162ارکان کو اکٹھا نہ کرسکی۔

اس حکومتی رکن نے کہا کہ لگتا ہے کہیں نہ کہیں عمران خان نے کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی خاموش این آر او کر رکھا ہے ورنہ اس بجٹ سیشن میں تو حکومت کے ارکان بھاگ بھاگ کر اپوزیشن کے پاس جا رہے تھے کہ کچھ کرو لیکن اپوزیشن نے سوائے دھواں دھار تقریروں کے کچھ نہیں کیا۔ اس حکومتی رکن نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ سیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے وہی کردار ادا کیا ہے جو پچھلے سال ان دونوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں کیا تھا۔

یہ سن کر میں چند لمحوں کیلئے کچھ سوچ کر بولا کہ نہیں! آپ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہیں، بہت جلد اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر ایک گرینڈ الائنس بنانے والی ہیں۔

حکومتی رکن نے کہا حامد بھائی آپ کہتے ہو تو مان لیتا ہوں لیکن میں نے اس بجٹ سیشن میں آپ کی محبوب اپوزیشن کو بڑا قریب سے چیک کیا ہے، میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ کچھ زور لگا کر پٹرول کی قیمت میں اضافہ واپس کرائیں لیکن اس اپوزیشن کا جب بھی ٹیسٹ ہوتا ہے تو رزلٹ پازیٹو آتا ہے، یہ اکثر بیمار ہو جاتی ہے اور عمران خان جو چاہتا ہے وہ کر لیتا ہے۔

اس نے اپنا ماسک ناک پر سرکاتے ہوئے کہا کہ مجھے بتائیے کہ بجٹ سیشن میں کون سی سمجھ دار اپوزیشن واک آئوٹ کرتی ہے؟ کل اپوزیشن نے واک آئوٹ کرکے عمران خان کو بڑے سکون سے تقریر کرنے کا موقع دیا، یہ اپوزیشن تو عمران خان کی سہولت کار بن چکی ہے۔ یہ الفاظ سن کر میں نے اپنا ماسک اتار کر زور دار قہقہہ لگایا اور حکومتی رکن سے کہا کہ آپ مجھے اپوزیشن کے خلاف بھڑکانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن اندر ہی اندر میں سوچ رہا تھا کہ اپوزیشن کو عمران خان کی تقریر کا جواب ضرور دینا چاہئے تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر مائنس ون ہو بھی گیا تو تمہاری جان نہیں چھوٹے گی۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ تم لوگوں پر مقدمے میں نے نہیں کسی اور نے بنائے ہیں اور اگلے ہی لمحے یہ بھی کہہ دیا کہ مشرف کی حکومت بہت اچھی تھی لیکن اس کا این آر او بہت بُرا تھا۔

عمران خان این آر او کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن انہیں کوئی یہ یاد نہیں دلاتا کہ جب 5اکتوبر 2007کو این آر او جاری ہوا تو اس کےتحت 1986سے 1999کے درمیان صرف کرپشن کے مقدمات ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ قتل اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ختم کئے گئے۔

اس این آر او سے محترمہ بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے زیادہ فائدہ تو الطاف حسین نے اٹھایا جن پر 72مقدمات ختم ہوئے جن میں سے 31قتل کے تھے۔

فاروق ستار پر 23مقدمات ختم ہوئے جن میں سے 5قتل کے تھے۔ اس کے علاوہ وسیم اختر، شعیب بخاری، عشرت العباد، بابر غوری اور کنور خالد یونس سمیت ایم کیو ایم کے تین ہزار سے زائد کارکنوں کو فائدہ ہوا۔ ان فائدہ اٹھانے والوں کی بڑی اکثریت آج عمران خان کی اتحادی ہے۔

این آر او سے آٹھ ہزار سے زائد سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے فائدہ اٹھایا جن میں ایف بی آر کے درجنوں افسران شامل تھے لیکن ان کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور یہ ذکر بھی نہیں ہوتا کہ جس عدلیہ کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے مل کر بحال کیا اس عدلیہ کے 17ججوں نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں 16دسمبر 2009کو یہ این آر او منسوخ کر دیا تھا۔

لہٰذا یہ کریڈٹ آزاد عدلیہ کا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ این آر او کو آزاد عدلیہ نے منسوخ کیا اور اسی مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ بھی دائر کرایا اور اس مقدمے کے فیصلے کو عمران خان کی ’’نظریاتی حکومت‘‘ تسلیم ہی نہیں کرتی۔

عمران خان کی حکومت پرویز مشرف، آصف زرداری اور نواز شریف کے پرانے ساتھیوں کے سہارے ریاستِ مدینہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ عمران خان بہت خوش قسمت ہیں۔ انہیں آج کی اپوزیشن سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں لیکن عمران خان بہت بدقسمت بھی ہیں۔ انہیں اپوزیشن کے بجائے اپنوں سے زیادہ خطرہ ہے۔

ان کے وزراء صرف حکومت نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور ایک وزیر صاحب نے تو آدھی دنیا میں پی آئی اے پر پابندی لگوا دی ہے۔ اس قسم کے وزراء پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں تو پھر کیا ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے