شبرا قصائی کے نام

گرمیاں گزرتی جا رہی ہیں لیکن نہ کوئی شام خانس پور میں گزر سکی ہے نہ بیسل کی اس حسین بستی میں پہاڑوں کی اوٹ سے دریا پر اترتی صبح کی زیارت ہو پائی ہے ۔ ٹریل فائیو پر بھی عجب سی اداسی ہے۔ کورونا نے زندگی کی ترتیب ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ دیدہِ دیدار سے عجب سی اداسی آن لپٹی ہے۔ گھر میں پڑی ساری کتابیں بار بار پڑھی جا چکیں اب کیا کیا جائے؟ اطغرل اب کوئی کتنی بار دیکھے، عثمان تو پنجابی فلموں جیسا ہے، کوئی کیسے دیکھے؟ لاسٹ کنگڈم بھی دیکھ لیا اور وائکنگز بھی اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نیٹ فلیکس پر دن میں گیارہ گھنٹے صرف کر نے کے بعد پھر وہی سوال آن لپٹتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ایسے میں برادرم رووف کلاسرہ کا محبت نامہ ملا تو دل کو تسلی ہوئی کہ ایک دو روز تو سنہری آنکھوں والی لڑکی اور تاریک راہوں کے مسافر پڑھتے گزر جائیں گے۔

گبریل گارشیا مارکیز کا تنہائی کے سو سال میں نے ٹریل فائیو پر انجیر کے چشمے کے پہلو میں انجیر کے بوڑھے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر پڑھا تھا ۔ یہ مرحوم نعیم کلاسرہ کا ترجمہ تھا ۔ آج کل ٹریل فائیو سے اپنی راہ و رسم کچھ کم ہو چکی ہے ۔ وبا کے دنوں میں کچھ نئے گوشے دریافت ہو چکے ہیں ۔

راول جھیل کی مغربی پگڈنڈی پر چلتے جائیں تو یہ راستہ جنگل میں جا کر ختم ہو جاتا ہے ۔ اختتام سے تھوڑا پہلے ایک گھنا درخت ہے ۔ اس درخت کے پہلو سے نیچے اتریں تو سامنے جھیل ہے۔ جھیل کے پانی میں پاؤں ڈبو کر بیٹھے رہیں اور مچھیروں کو دیکھتے رہیں ، یہاں تک کہ صبح ہو جائے۔ اس مقام سے سورج آپ کے بالکل سامنے سے طلوع ہوتا ہے اور صبح کی یہ پہلی کرن جھیل اور آپ کے دل کے سیپ میں اکٹھی اترتی ہے۔

صبح دم میں نے ”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ کو تھاما اور جھیل کنارے جا کر بیٹھ گیا ۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا ۔ خیال تھا کہ دھوپ کی ھدت بڑھنے تک بالزاک کا یہ ناول پڑھا جا چکا ہو گا ۔ لیکن کتاب کے انتساب نے ہی ایسا جکڑ لیا کہ وہیں کا ہو رہا : ”اپنی بستی کے جناب شبرا قصائی مرحوم کے نام ، جو گرمیوں کی دوپہر اپنی ہٹی پر ہم گاؤں کے بچوں کو اپنے مسحور کن اور دل فریب انداز میں جنوں، پریوں، شہزادے اور شہزادیوں کے قصے سنایا کرتے تھے“۔

جھیل کی خاموش وسعتوں کو تکتے تکتے خیال آیا کہ شبرا قصائی صاحب جیسے کتنے ہی کردار ہماری زندگیوں میں آئے لیکن ہم نے انہیں یوں فراموش کر دیا جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں ۔ رؤف کلاسرہ سے محبت کرنے کی میرے پاس بہت ساری وجوہات ہیں اور ان کی اپنی دھرتی کے رنگوں سے وابستگی ان میں سب سے نمایاں وجہ ہے۔ وقت کے ہیر پھیر میں یہ ناول شاید ذہن سے محو ہو جائے لیکن قاری کو یہ نہیں بھولے گا کہ اس ناول کا انتساب شبرا قصائی کے نام تھا ۔ مطالعے کی دنیا میں یہ انتساب امر رہے گا ۔

یہ انتساب ہاتھ پکڑ کر مجھے عشروں پیچھے میرے گاؤں لے گیا ۔ تب وہاں بھی کچھ ایسے کردار تھے ۔ فرق صرف اتنا ہے روؤف کلاسرہ نے اپنے گاؤں کے داستان گو کو امر کر دیا ، ہم نے اپنا داستان سرائے بھلا دیا ۔

چاچا گھائیا ہوتا تھا ۔ معلوم نہین اصل نام کیا تھا ہم اسے چاچا گھائیا ہی کہتے تھے۔ سرد راتوں میں الاؤ کے گرد جمی محفل اس کے بغیر ادھوری ہوتی تھی فرانسس بیکن جیسا اختصار، حقہ کی نے منہ میں لے کر گڑ گڑ کرتے اچانک ایک فقرہ اچھالتا تھا اور محفل لوٹ پوٹ ہو جاتی تھی ۔ یہ لطیفہ بھی اسی نے سنایا تھا کہ چودھری نے جب ہرن کا شکار کیا تو بات فیتوں تک کیسے پہنچی۔

چودھری کو شکار کا شوق تھا مگر ہمت نہ تھی ۔ اس نے ایک نوکر سے کہا یہ کمی اب تم نے پوری کرنی ہے، تمہارا کام اب میرے ہر جھوٹ پر ہاں میں ہاں ملاتے جانا ہے۔ لیکن میں اگر جھوٹ زیادہ بولنے لگوں تو تم نے کھنگھورا مار دینا ہے تا کہ جھوٹ پکڑا نہ جائے اور میں بات سنبھال لوں ۔ ساتھ والے گاؤں سے مہمان آئے تو چودھری نے شکار کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میں نے پچھلے جاڑے میں 100فٹ لمبا ہرن مارا تھا ۔ نوکر سے یہ سنا تو کھنگورا مار دیا ۔ چودھری کو سمجھ آگئی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔

اس نے بات سنبھالتے ہوئے کہا : لیکن جب ہم پاس پہنچے تو وہ 80 فٹ کا تھا ۔ نوکر نے پھر کھنگورا مار دیا۔ چودھری نے پریشان ہو کر پہلو بدلا اور کہا جب ہم نے فیتے سے اس کی پیمائش کی تو وہ 60 فٹ کا نکلا ۔ نوکر نے پھر کھنگورا مار دیا ۔ چودھری کو بڑاغصہ آیا کہ اب تو فیتے سے پیمائش ہو چکی ہے اب ہرن کا قد مزید چھوٹا کیسے جائے۔ اس نے کہا : اوئے چپ کر بد بختا، گل ہن فیتیاں تے آ گئی ہے“۔

ایک چاچا دوسا ہوتا تھا ۔ حجام تھا ۔ ہر جمعہ کو وہ حویلی میں آ جاتا اور ہم سارے کزن ڈر کے چھپ جاتے۔ کیوں کہ وہ ایسی حجامت کرتا تھا کہ سر پر بنے یوٹرن دیکھ کر دور سے ہی لوگوں کو پتا چل جاتا تھا کہ حجامت ہو نہیں رہی حجامت ہو چکی ہے۔ ہم اس حجامت پر اعتراض کرتے تو وہ نانا جی سے شکایت لگاتا : چودھری صاحب میرے جیسی حجامت آج تک کسی نے نہیں بنائی لیکن یہ لڑکے تو ہیں ہی میرے دشمن ۔ سارے ستیا ناس کے بعد بھی چاچے دوسے کا مطالبہ ہوتا تھا ہم کہیں کہ واہ چاچا واہ ، ایسی حجامت تو آج تک کسی نے نہیں بنائی ۔ یہ کام تو تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ واہ چاچا واہ ۔ واہ صاحب واہ ۔ کتنے ہی کردار تھے، ہم نے بھلا دیے۔ ہر آدمی رؤف کلاسرہ تھوڑی ہوتا ہے کہ دھرتی کے رنگوں کی کہکشاں ساتھ لیے پھرے۔

یادوں کی برسات تھمی تو احساس ہوا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ مترجم کا نوٹ پڑھنا شروع کیا تو دل گداز سے بھر گیا ۔ روؤف لکھتے ہیں : مجھے خود پچپن سے کہانیاں سننے کا شوق تھا ۔ چھوٹا تھا تو اماں کے ساتھ بستر میں گھس جاتا کہ کہانی سنائیں ۔ سارا دن کام کاج سے تھکی اماں کو نیند آ رہی ہوتی لیکن میرا اصرار بڑھتا جاتا تو وہ نیم وا آنکھوں سے مجھے کہانی سنانا شروع کر دیتیں ۔کہانی سناتے سناتے اماں کی آنکھ لگ جاتی تو میں انہیں جگا کر کہتا اماں کہانی مکمل کریں ۔ تب پھر مجھے سنانے کے لیے کہتیں : ”رات کو قصے نہیں سناتے ورنہ مسافر جنگلوں میں راستہ بھول جاتے ہیں“۔

دھوپ نکل آئی تھی ۔ میں اٹھ آیا ۔ کہانی ابھی باقی ہے۔ کہانی ابھی شروع ہی کہاں کی ہے۔ لیکن رات جب علی کہانی کے بعد اگلے دن کی کہانی کا ٹریلر سننے کی ضد کرے گا تو میں بھی اسے کہ دوں گا : رات کو قصے نہیں سناتے، مسافر راستہ بھول جاتے ہیں“۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے