انتخابات 2020 : حلقہ نمبر1گلگت

گلگت بلتستان کے 23حلقوں میں انتخابات رواں سال کے 15نومبر کو منعقد کئے جائیں گے۔ حلقہ3گلگت میں تحریک انصاف کے صوبائی صدر اور امیدوار سید جعفرشاہ کی رحلت کے بعد انتخابات ملتوی کئے گئے بعد ازاں نیا شیڈول جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق 23نومبر کو حلقہ3جی بی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ گلگت بلتستان کے انتخابی حلقوں کا آغاز ضلع گلگت سے ہوتا ہے،ضلع گلگت تین حلقوں پر مشتمل ضلع ہے۔ کونوداس آر سی سی پل کے مقام سے حلقہ1اور حلقہ2تقسیم ہوجاتے ہیں جبکہ سب ڈویژن دنیور مکمل ایک حلقہ ہے۔ ضلع گلگت میں رواں سال ہونے والے انتخابات کے لئے 118459 ووٹر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔حلقہ نمبر 1گلگت گھڑی باغ اور ہسپتال چوک سے شروع ہوتا ہے اور شکیوٹ تک پھیلا ہواہے۔ اس حلقے کا دوسرا سرا معروف سیاحتی مقام نلتر سے لیکر کارگاہ تک پھیلا ہوا ہے۔حلقہ نمبر1گلگت اب تک فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتخابات کی وجہ سے بدنام رہا ہے تاہم گزشتہ انتخابات میں یہ لہر قدرے کم ہوگئی تھی۔

2009 کے انتخابات میں اس حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 47835 تھی، جس میں 20ہزار خواتین اور 27 ہزار سے زائد مرد ووٹر شامل تھے، مذکورہ الیکشن میں دستی ووٹر لسٹوں کی وجہ سے ایک بندے کے ایک سے زائد ووٹ تھے۔ 2015 میں پہلی مرتبہ ون ووٹ ون پرسن کے قانون کے دوبارہ رجسٹریشن میں اس حلقے کے ووٹ کم ہوکر 30397ہوگئے جن میں سے 13548خواتین اور 16849مرد تھے۔ رواں سال 15نومبر کو ہونے والے انتخابات میں اس حلقے سے 35840ووٹر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017کی رو سے رواں سال نادرا کے ریکارڈ کے مطابق ڈیٹا اکھٹا کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس حلقے سے ایک احمدی اقلیتی ووٹ بھی رجسٹرڈ ہوچکا ہے۔

2009 کے انتخابات میں اس حلقے 22 امیدوار سامنے آئے تھے جن میں سے 11 امیدوار دستبردار ہوگئے جبکہ 6 امیدوار ایسے تھے جن کے ووٹ ڈبل فگر میں شامل نہیں ہوسکے۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے عبدالواحد خان اور متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین ہزار سے کم ووٹ لینے والوں میں شامل تھے۔ مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد ووٹ لینے والے تین امیدوار تھے جن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے محمد موسیٰ بھی شامل تھے، تاہم اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار جعفراللہ خان اورآزاد امیدوار سید رضی الدین (مرحوم) کے مابین ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار جعفراللہ خان مذکورہ انتخابات میں 8858ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے جبکہ آزاد امیدوار سید رضی الدین (مرحوم)10012ووٹ لیکر نشست جیت گئے۔ مذکورہ انتخابات میں کل 20527ووٹ کاسٹ ہوگئے جو کہ کل ووٹوں کا 43 فیصد تھا۔

2015 کے انتخابات میں اس حلقے سے 24امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے 10امیدوار سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ تھے اور 14امیدواروں نے آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرائے۔ مذکورہ انتخابات میں گلگت بلتستان قومی موومنٹ کے صدر عبدالواحد نے انتخابی نشان الاٹ نہ ہونے پر بائیکاٹ کردیا۔ الیکشن میں 8امیدواروں نے 10سے کم ووٹ لئے۔

10امیدواروں کاووٹ 100سے کم رہا۔ پانچ امیدواروں نے ایک ہزار سے زائد ووٹ کا ہدف عبور کرلیا۔ جن میں آزاد امیدوار و سابق رکن اسمبلی حمایت اللہ خان نے 1471، سابق چیئرمین بلدیہ گلگت الیاس صدیقی نے 2109، سید نظام الدین (نومل) نے 2285ووٹ لئے۔ انتخابی معرکہ میں جیت کے لئے اصل تگ و دو پیپلزپارٹی کے امیدوار امجد حسین ایڈوکیٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار جعفراللہ خان کے درمیان رہی جس میں پیپلزپارٹی کے امیدوار امجد حسین ایڈوکیٹ نے 6297 ووٹ لئے،پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار جعفراللہ خان نے 7171ووٹ لیکر انتخابی میدان مار لیا۔ 2015 کے انتخابات میں ووٹ کا ٹرن آؤٹ گزشتہ کے مقابلے میں بہت بہتر رہا۔ مجموعی 30397میں سے 19710ووٹروں نے حق رائے دہی میں حصہ لیا جو کہ 65فیصد کے قریب رہا ہے۔

حلقہ نمبر1گلگت گزشتہ انتخابات کے بعد فوراً بعد سے ہی سیاسی حلقوں کا محور بن گیا۔ انتخابات ہارنے کے باوجود پیپلزپارٹی کے امیدوار امجد حسین ایڈوکیٹ کو صوبائی صدر بنایا گیا جبکہ حلقے سے جیتنے والے امیدوار جعفراللہ خان کو اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کی زمہ داری دیدی گئی۔ گزشتہ پانچ سالوں میں حلقہ نمبر1گلگت بڑی حد تک سیاسی سرگرمیوں کا محور بنا رہا۔ حلقہ نمبر1میں اب بھی مذہبی ووٹ بڑی تعداد میں موجود ہے تاہم مذہبی جماعتوں کا وجود مذکورہ حلقے میں مضبوط نہیں ہے۔

حلقہ نمبر1گلگت میں آمدہ انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 37امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جن پر اعتراضات کا مرحلہ آج (بروز اتوار) اختتام پذیر ہورہا ہے اور حتمی فہرست چھپ جائے گی۔ حلقے سے پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ، پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جوہر علی آف نومل، اسلامی تحریک پاکستان کی جانب سے سید مصطفیٰ شاہ، پاکستان راہ حق پارٹی کی جانب سے حمایت اللہ خان، جمعیت علماء اسلام کی جانب سے چوہدری عبدالحمید گجر لڑرہے ہیں جبکہ مولانا سلطان رئیس، مولانا آصف عثمانی،سمیت دیگر بھی پنجہ آزمائی کررہے ہیں۔

حلقہ نمبر1گلگت میں پیپلزپارٹی کا ماضی کا ریکارڈ حوصلہ افزاء نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ امجد حسین ایڈوکیٹ کی نامزدگی اور انتخابی دنگل میں آنے سے قبل حلقہ1گلگت میں پیپلزپارٹی کا وجود نہیں تھا تاہم گزشتہ پانچ سالوں میں اسی حلقے سے پیپلزپارٹی کے امجد حسین ایڈوکیٹ نے پورے جی بی کے 24حلقوں میں متحرک کردیا۔ 2015 کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے اس حلقے میں نیا سفر شروع کیا ہے، حیرت انگیز طور پر 2015کے انتخابات میں امجد حسین ایڈوکیٹ کی جیت کی راہ میں رکاوٹ بننے اور اہم ووٹ سمیٹنے والے الیاس صدیقی کو آمدہ انتخابات میں لڑنے سے روکا گیا ہے، مذکورہ فیصلہ مجلس وحدت المسلمین اور پی ٹی آئی کے مابین ہونے والے انتخابی اتحاد کے نتیجے میں کی گئی ہے۔

اس حلقے سے مولانا سلطان رئیس، آصف عثمانی، حمایت اللہ خان و دیگر بھی حلقے میں رہتے ہوئے سیاست کرنے کے قائل نظر آئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بھرپور متحرک رہنے اور جی بی بھر کے دورے کرنے والے سلطان رئیس کا کڑا امتحان ہے کہ وہ ’اخلاقی حمایت ‘کو ’سیاسی حمایت‘ میں تبدیل کرے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار جعفراللہ خان پانچ سال ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔ جعفراللہ خان کا گزشتہ دو انتخابات کا ریکارڈ بہت مضبوط ہے تاہم صورتحال اب ماضی والی نہیں ہے جس کی وجہ سے جعفراللہ خان کو بھی سخت محنت کی ضرورت ہے۔ سردست اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ اور مسلم لیگ ن کے جعفراللہ خان کے درمیان ہی مقابلہ لگ رہا ہے جس میں پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہونے والی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اور مسلم لیگ ن حکومت میں رہنے کی وجہ سے گھٹتے ووٹ کے ساتھ دنگل میں اتر رہی ہے۔ سابقہ انتخابات کی طرح دیگر امیدواروں کا ووٹ ان دونوں کی جیت اور ہار میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے