گلگت بلتستان میں 1994میں ہونے والے حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع سکردو میں 6حلقے قائم کئے گئے۔ 2015کے انتخابات کے بعد دو حلقوں، شگر اور کھرمنگ، کو الگ الگ ضلع بناکر سکردو سے الگ کردیا گیا۔ اس وقت ضلع سکردو چار حلقوں پر مشتمل ضلع ہے۔ ضلع سکردو حلقہ1جی بی 7کی صورتحال اور سیاسی تاریخ گزشتہ کالم میں زکر کی جاچکی ہے۔ سکردو حلقہ 2جی بی 8کا شمار بھی ووٹ کے تناسب سے جی بی کے بڑے حلقوں میں ہوتا ہے۔ اس حلقے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے لئے پہلی مرتبہ دو خواتین نشستوں کی منظوری ملی تو ان میں سے ایک اس حلقے سے تعلق رکھنے والی فوزیہ سلیم عباس بھی شامل تھیں۔ فوزیہ سلیم عباس نے اس حلقے سے 2009کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرایا تھا تاہم بعد ازاں دستبرداری حاصل کرلی۔ فوزیہ سلیم عباس 2015کے انتخابات سے قبل پہلی نگران حکومت میں وزارت کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔ آج کل تحریک انصاف میں شامل ہوگئی ہیں تاہم عملی سیاست میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔
اس حلقے سے پہلی مرتبہ 1994کے انتخابات میں سید محمد عباس نے نمائندگی کی ہے۔ 1999میں ناردن ایریاز قانون ساز کونسل کے دوسرے انتخابات،جو کہ جی بی کی سیاسی تاریخ کے آٹھویں انتخابات تھے،میں ضلع سکردو کے مذکورہ حلقے سے سید محمد عباس رضوی نے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا۔
12 اکتوبر 2004میں پرویز مشرف دور حکومت میں انتخابات ہوئے تو حلقہ 8سکردو 2 کی نمائندگی کا شرف شیخ نثار حسین سرباز کو حاصل ہوا جس پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچ گئے تھے۔
2009کے انتخابات میں اس حلقے سے 39325ووٹر رجسٹرڈ ہوگئے جن میں 18956خواتین اور 20729مرد ووٹر رجسٹرڈ تھے۔سکردو حلقہ نمبر2جی بی 8سے 2009 کے انتخابات میں کل 5 امیدوار سامنے آئے۔ جس میں فوزیہ سلیم عباس دستبردار ہوگئیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سے نثار خان نے 295ووٹ لئے، آزاد امیدوار غلام نبی نے 4393ووٹ لئے۔ سید محمد علی شاہ نے نے 4690ووٹ لئے جبکہ پیپلزپارٹی کے شیخ نثار سرباز نے 8077ووٹ حاصل کرلئے۔ مجموعی طور پر 17455ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ تناسب کے لحاظ سے صرف 44.3فیصد رہا۔
2015کے انتخابات میں ون پر سن ون ووٹ رجسٹریشن کے مطابق اس حلقے سے 34281ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے۔ جن میں خواتین کی تعداد 15820اور مرد ووٹروں کی تعداد 18461تھی۔
2015کے انتخابات میں حلقہ 8سکردو 2سے کل 6امیدوار کھڑے ہوگئے جس میں قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے فرمان علی نے 381ووٹ لئے۔ تحریک انصاف کے محمد زاکر نے 445، اسلامی تحریک کے سید محمد نے 2945 ووٹ، پیپلزپارٹی کے شیخ نثار سرباز نے 2485، سید محمد علی شاہ نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے 4841، جبکہ مجلس وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم سے کاچو امتیاز حیدر نے 10411ووٹ لیکر فتح حاصل کرلی۔ 34281ووٹ کے مقابلے میں 21508ووٹ کاسٹ ہوگئے جس کا تناسب 62.7فیصد رہا۔ مجلس وحدت المسلمین کے ٹکٹ سے جیتنے والے کاچو امتیاز حیدر نے جی بی کونسل کے انتخابات میں اپنا ووٹ پارٹی امیدوار کو دینے کے بجائے سید افضل کو دیدیا جس کے بعد پارٹی اور کاچو امتیاز میں سخت تناؤ آگیا۔
مجلس وحدت المسلمین نے سپیکر جی بی اسمبلی کو درخواست دیدی کہ کاچو امتیاز کو پارٹی کی رکنیت سے بھی فارغ کیا گیا ہے لہٰذا ڈی سیٹ کیا جائے لیکن حکومت کو کاچو امتیاز کی ضرورت تھی اسلئے انہوں نے ڈی سیٹ نہیں کیابعد ازاں حفیظ الرحمن کے ساتھ یہی کھیل سپیکر فدا محمد ناشاد نے کھیلا۔پانچ سالوں کے دوران کاچو امتیاز حیدر کا شمار بھی ایسے ممبران میں ہوا جو فرینڈلی اپوزیشن کے حامی تھے۔اور حفیظ حکومت میں اپنے حلقے کو سب ڈویژن کا درجہ دلانے میں کامیاب ہوگئے۔24جون 2019کو حلقہ 2سکردو جی بی 8کو سب ڈویژن بنانے کا اعلان کردیا گیا تھا۔
اس حلقے سے دو مرتبہ پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے جیتنے والے شیخ نثار سرباز 2015کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی ضلع سکردو کے صدر مقرر کئے گئے تاہم انہوں نے صدارتی کے عہدہ سے بھی استعفیٰ دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ شیخ نثار سرباز کے ہاتھوں سے وقت اس وقت سرک گیا جب راجہ جلال حسین مقپون گورنر بن گئے اور انتخابات سمیت حلقوں سے دلچسپی کم ہوگئی یا انہیں جان بوجھ کے سائیڈ کردیا گیا۔
2020 کے آمدہ انتخابات کے لئے حلقے سے کل 39567ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے ہیں، جس میں سے 17716خواتین ووٹر اور 21851مرد ووٹر شامل ہیں۔ آمدہ انتخابات کے لئے اس حلقے سے کل 54پولنگ سٹیشن بنا ئے گئے ہیں جن میں سے 20مردوں کے لئے اور 19خواتین کے لئے الگ ہیں جبکہ 15 پولنگ سٹیشن مخلوط ہیں۔ حلقہ 8سکردو2سے ایک احمدی خاتون بھی بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوچکی ہے۔ حلقہ 2 سکردو سے آمدہ انتخابات کے لئے کل 9امیدوارسامنے آئے ہیں جو باضابطہ ٹکٹ اور انتخابی نشان حاصل کرچکے ہیں۔
انتخابات کے لئے کل 9امیدواروں کا نام فائنل ہوچکا ہے جنہیں انتخابی نشان دیدیا گیا ہے۔ جن میں پاکستان پیپلزپارٹی نے سید محمد علی شاہ، مجلس وحدت المسلمین نے محمد کاظم، اسلامی تحریک کے ٹکٹ پر ایڈوکیٹ محمد شبیر حافظی، مسلم لیگ ن کی جانب سے محمد سعید،آل پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منظور حسین، کاچو امتیاز حیدر خان آزاد حیثیت میں، احمد خان، شیر علی سعیدی، اور محمد افضال شامل ہیں۔ محمد افضال لمبی مونچھوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مقبول ہیں۔
آمدہ انتخابات میں یہ دوسرا حلقہ ہے جہاں تحریک انصاف نے اپنا امیدوار نہیں اتارا ہے اور مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہ حلقہ ان کو خالی چھوڑا ہے۔ گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کا وہ اثر بھی نہیں ہے جو 2009کے انتخابات میں نظر آیا تھا کیونکہ ان کا پسندیدہ یا قریبی امیدوار شیخ نثار سرباز انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنا وزن مسلسل دوسرے نمبر پر آنے والے نوجوان محمد علی شاہ کے پلڑے میں رکھا ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کے مقبول رہنما و جنرل سیکریٹری آغا علی رضوی اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور حلقے میں آغا علی رضوی کی بھی بڑی گرفت ہے۔2009کے انتخابات میں اس حلقے میں پیپلزپارٹی اور موجودہ گورنر راجہ جلال حسین مقپون کا اثرر ہا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار شیخ نثار سرباز کو بھاری اکثریت مل گئی۔
2015کے انتخابات میں کاچو امتیاز حیدر اور مجلس وحدت المسلمین کا اثر رسوخ زیادہ نظر آیا جس کی وجہ سے کاچو امتیاز بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ اس حلقے میں مجلس وحدت المسلمین، پیپلزپارٹی، اور کاچو امتیاز کے درمیان مقابلے کا امکان ہے تاہم کاچو امتیاز کسی پارٹی کا ٹکٹ بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں اور حلقے سے دوررہنے کا الزام بھی ہے تاہم وہ جاندار طریقے سے اپنی مہم چلارہے ہیں۔ اس وقت بلتستان بلاول بھٹو زرداری کے طوفانی دوروں کی زد میں ہے، بلاول کے حلقوں میں دورے کے بعد پیپلزپارٹی کا گراف مزید بلند ہوتا آرہا ہے۔