سکردو شہر سے تقریباً آدھا گھنٹہ مسافت پر پاکستان کا سب سے بلند سرد صحرا سرفرنگہ آتا ہے جسے چاروں طرف سے پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے۔ ایک پکی تاہم کمزور سی سڑک اس صحرا کو بیچ سے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اگر گلگت شہر سے پہلی مرتبہ کوئی بندہ اس سڑک کو ساتھ لئے آگے چلتا جائے اور پہاڑوں کے بیچوں بیچ گزرتا جائے تو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ کونوداس کی معلق پل سے گزرکر سکارکوئی کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم جوں جوں قریب ہوجائے تو یہ اثر نہ صرف زائل ہوتا ہے بلکہ ایک خوشگوار حیرت سی ہوتی ہے، اور ایک وسیع و عریض علاقے سے تعارف ہوجاتا ہے جہاں مرکزی شاہراہ کے ساتھ ہی بڑا پولوگراؤنڈ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اس علاقے کو ’شگر‘ کہا جاتا ہے جس کے وسعت اور اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گاڈون آسٹن(کے ٹو) پہاڑ کو اس علاقے نے اپنے دامن میں جگہ دی ہوئی ہے۔ جس کی بلندی 8611میٹر ہے، اس پہاڑ کو پہلی مرتبہ اطالوی کوہ پیماجماعت نے سرکیا اور کوہ نوردی میں امر ہوگئے۔ اس پہاڑ کو پہلی مرتبہ 1861میں امریکی شہری گاڈون آسٹن نے دریافت کیا اور اس خدمت کے اعتراف میں یہ دنیا کا دوسراسب سے بلند پہاڑ ان کے نام سے منسوب ہوگیا۔ مشہور گلیشیئرز چوغولنگمہ، بیافو، بلتورو و دیگر مل کے دریائے شگر کو دوام بخشتے ہیں۔شگر میں موجود الچوڑی معدنیات کے لئے انتہائی معروف مقام ہے۔ شگر میں فونگ کھر کے نام سے ایک قلعہ ہے جس کی عمر کم از کم چار سو سال پرانی بتائی جاتی ہے جسے اب گیسٹ ہاؤس میں تبدیل کیا گیا ہے۔
شگر کا علاقہ 2015تک ضلع سکردو کا سب ڈویژن تھا۔پاکستان مسلم لیگ ن نے 2015 میں حکومت بننے کے بعد ہی اس خوبصورت وادی کو ضلع قرار دیا۔جس کے بعد یہ حلقہ سکردو کا چھٹا حلقہ بننے کی بجائے شگر کا واحد حلقہ بن گیا۔
شگر سیاسی اعتبار سے زرخیز علاقہ ہے جہاں سے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں نمائندگی رہی ہے۔ 1970میں پہلی مرتبہ بننے والی مشاورتی کونسل سے لیکر 1983 تک اس علاقے سے حاجی محمد حسین نے مسلسل نمائندگی کی ہے تاہم 1987میں پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کے موجودہ امیدوار راجہ اعظم نے نمائندگی کا اعزاز پالیا، راجہ اعظم 1991کی کونسل میں بھی بطور رکن موجود رہے۔ 1994میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے پہلے انتخابات میں دوبارہ حاجی محمد حسین جیت گئے۔ 1999کے انتخابات میں ایک نئے چہرے نے نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا جسے عمران ندیم کہتے ہیں جوکہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں تاہم پریکٹس نہیں کرتے ہیں۔ عمران ندیم 2004کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر شگر سے جیت گئے۔
2009کے انتخابات میں 32300ووٹ رجسٹرڈہوئے جن میں سے 15550 خواتین اور 16750 مرد شامل تھیں۔ انتخابات میں صرف دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر عمران ندیم میدان میں اترے جبکہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر راجہ اعظم خان میدان میں اتر گئے۔ پیپلزپارٹی نے 8791ووٹ حاصل کئے جبکہ ایم کیو ایم اس حلقے سے 10306ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی ہوگئی اور اسمبلی میں واحد تنظیمی نشست مل گئی۔ حکومت سازی کے چند ماہ بعد یک رکنی جماعت ایم کیو ایم کو مہدی شاہ نے حکومت میں شامل کرلیا اور راجہ اعظم خان کو منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت سونپ دی گئی۔ انتخابات میں کل 19097ووٹ پڑگئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 59فیصد رہا۔
2015کے انتخابات میں اس حلقے 30413ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 14607 خواتین اور 15806مرد ووٹر تھے۔انتخابی میدان میں چار امیدواروں نے حصہ لیا۔ ایم کیوایم سے مستعفیٰ ہوکر راجہ اعظم نے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ حاصل کرلیا۔ پیپلزپارٹی نے عمران ندیم کو ہی آزمالیا جبکہ ایم ڈبلیو ایم نے فداعلی اور پاکستان عوامی تحریک نے عابد حسین کو ٹکٹ جاری کیا جو صرف 97 ووٹ لے سکے۔ مجلس وحدت المسلمین کے خیمے میں 2183 ووٹ پڑ گئے۔ 2009 میں عمران ندیم کی طرح 2015میں راجہ اعظم بھی وفاق میں حکومت ہونے کے باوجود ہار گئے۔ راجہ اعظم خان نے 9930ووٹ حاصل کئے جبکہ عمران ندیم 10422ووٹ لیکر جیت گئے۔ عمران ندیم حفیظ حکومت کے دوران اپوزیشن بنچوں پہ بیٹھ گئے۔ گوکہ عمران ندیم بھی متحدہ اپوزیشن کے سرگرم رکن نہیں رہے تاہم پارلیمانی معاملات، آئینی حقوق، اداروں کی کارکردگی اور زمہ داری سمیت عوامی مسائل پر عمران ندیم کبھی خاموش نظر نہیں آئے۔ 2015 کے انتخابات میں 22632ووٹ پڑگئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 74.4فیصد رہا۔ راجہ اعظم خان نے ایک مرتبہ پھر پارٹی تبدیل کرکے اس بار تحریک انصاف کے کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
آمدہ انتخابات کے لئے اس حلقے سے 36183ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے ہیں جن میں 16663خواتین اور 19520مرد ووٹر ہیں۔ انتخابات کے لئے کل 70 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 17 مردوں کے لئے الگ، 17خواتین کے لئے الگ جبکہ 36مخلوط سٹیشن ہیں۔ حلقے سے کل 4امیدوار سامنے آئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے پرانے پاپی راجہ اعظم، مسلم لیگ ق نے محمد حسن، مسلم لیگ ن نے محمد طاہر شگری جبکہ پیپلزپارٹی نے عمران ندیم کو ٹکٹ جاری کردیا ہے۔
اس حلقے کی عمومی روایت راجہ اعظم خان اور عمران ندیم کے مابین ہی رہی ہے تاہم عمران ندیم کے انٹری کے بعد راجہ اعظم کو بہت کم موقع ملا ہے۔ 1999سے اب تک عمران ندیم تین مرتبہ اور راجہ اعظم خان نے صرف ایک مرتبہ اس حلقے کی نمائندگی کی ہے۔آمدہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے محمد طاہر شگری نے بھی حلقے میں محنت کی ہے تاہم اس دورکنی سیاسی نظام کو توڑنا آسان نہیں ہے۔ عمران ندیم حسب سابق مضبوط ہیں۔ پہلی مرتبہ اس حلقے کی انتہائی معروف شخصیت جی ایم سکندر(سابق پرسنل سیکریٹری وزیراعلیٰ پنجاب) نے بھی حلقے میں متحرک ہونے کا اعلان کرتے ہوئے عمران ندیم کی حمایت کردی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ دنوں میں اس حلقے میں ایک شاندارجلسہ کرکے پیپلزپارٹی کے قلعے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ آمدہ ایام میں علی امین گنڈاپور کا جلسہ بھی متوقع ہے تاہم علی امین گنڈاپور کی انتخابی مہم کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیکر تمام دیگر جماعتوں نے تحفظات کااظہار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے چیف کورٹ جی بی میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جبکہ مسلم لیگ ن نے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا ہے جس کی وجہ سے علی امین گنڈاپور کے متوقع جلسہ پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔