انتخابات 2020: حلقہ 13استور 1

ضلع استور گلگت بلتستان کا سب سے اہم جغرافیائی اور سرحدی علاقہ ہے۔ 1947کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں نے سب سے زیادہ نقصان استور کو ہی دیا ہے۔ اس سے قبل استور گلگت بلتستان کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا تھا تاہم معاملات کا رخ تبدیل ہونے پر استور ایک دورافتادہ کونہ بن کر رہ گیا۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے افراد کی پہلی کھیپ استور کی حیثیت کو سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے براستہ استور کشمیر اور مختلف علاقوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ موجودہ عارضی حد بندی میں ضلع استور مختلف مقامات پر جی بی اور پاکستان کی سرحد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضلع استور درہ برزل، پھلوئی، قمری، اور دیوسائی جیسے دروں کی وجہ سے قدرتی حسن اور سیاحت میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے جن کے مسکن میں ڈومیل، نانگا پربت، راما سمیت متعدد خوبصورت مقامات ہیں جو سیاحوں کے لئے کشش کا سامان بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا قومی جانور مارخور بھی اس علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ضلع استور سے اس وقت رابطے کے دو راستے ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر اسلام آباد سے سفر کرتے ہوئے گلگت کے حدود سے پہلے دائیں جانب مڑجائیں تو شاہراہ استور شروع ہوجاتی ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ سکردو سے براستہ دیوسائی ہے۔ استور کا گلگت سے فاصلہ تقریباً 130 کلومیٹر جبکہ سکردو سے 145کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ استور کی آبادی شینا زبان بولتی ہے تاہم لہجہ گلگت سے مختلف ہے اور دراس کرگل کے لہجے سے مماثلت رکھتا ہے۔

ضلع استور کو 2004میں پرویز مشرف کے دور میں ضلع کی حیثیت ملی۔ وادی استور بھی سیاسی اعتبار سے زرخیز زمین ہے۔ 1970 کی 16رکنی مشاورتی کونسل میں استور سے دو اراکین موجود تھے جن میں ایک امیر حمزہ صاحب جبکہ دوسرے محمد خورشید خان صاحب(ایم اے ایل ایل بی) موجود تھے۔ 1974کی ناردن ایریاز کونسل میں قاری عبدالحکیم اور عبدالحمید خاور کو نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1979میں استور سے افلاطون اور قاری عبدالحکیم اراکین منتخب ہوگئے۔ 1983 میں محبوب علی اور حاجی جان محمد معرکہ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1987میں استور کی نمائندگی کا اعزاز محمد نصیر خان اور صاحب خان کو ملا۔ 1991 میں استور سے محبوب علی اورشاہد علی خان جیت گئے۔

1994 کے انتخابات میں استور سے نصر اللہ اور عبدالحمید اسمبلی اسمبلی پہنچ گئے۔ 1999 کے انتخابات میں صاحب خان اور محبوب علی خان جیت گئے۔ مذکورہ انتخابات میں پہلی مرتبہ سپیکر کا عہدہ بھی متعارف کرایا گیا جس پر استور کے صاحب خان جلوہ افروز ہوگئے اور پہلے سپیکر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 2004کے انتخابات میں استور سے عبدالحمید اور مظفر علی ریلے جیت گئے، مذکورہ انتخابات میں یہ دونوں بھی مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ انتخابات کے بعد استور سے نصر اللہ خان کو ٹیکنوکریٹ اور شاہدہ یوسف کو استور سے خواتین نشست میں اسمبلی تک پہنچادیا گیا۔

ضلع استور کو اس لحاظ سے منفرد مقام حاصل ہے کہ حلقہ بندیوں کی موجودہ صورتحال استور میں 1974سے قائم ہے اور اب تک دو حلقے ہیں جنہیں بنیادی طور پر تحصیل کی بنیاد پر الگ کیا گیا ہے۔استور کا حلقہ 1سکردو سے استور کی طرف آنے والا علاقہ ہے جبکہ چلم کے مقام سے اس حلقے کی مختلف شاخیں پھیل جاتی ہے جو قمری منی مرگ ڈومیل تک جا پہنچتا ہے۔
حلقہ 1استور میں پانچ یونین کونسل ہیں جن میں گدائی یونین، قمری منی مرگ، رٹویونین، رحمان پور اور ضلعے بالا(شنکرگڑھ) یونین شامل ہے۔

2009 میں امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کے تحت ہونے والے صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات میں استور کے حلقہ 1سے 27299ووٹ رجسٹرڈ ہوئے۔ جن میں خواتین کی تعداد 13509 اور مردوں کی تعداد 13789تھی۔ انتخابات میں کل 14امیدواروں نے حصہ لیا۔ پیپلزپارٹی نے عبدالحمید، مسلم لیگ ن نے رانا فرمان، مسلم لیگ ق نے مشتاق ولی، گلگت بلتستان ڈیموکریٹک الائنس نامی مقامی اتحاد نے محمد اقبال کی حمایت کی۔ خالد خورشید نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور 2667ووٹ لیا جو کہ آزاد امیدواروں میں پہلے اور حلقے میں تیسرے نمبر پر رہے۔ مسلم لیگ ن کے رانا فرمان نے 3546ووٹ لیا جبکہ عبدالحمید نے 3771ووٹ حاصل کئے۔ انتخابات میں کل 11512 ووٹ پڑ گئے جو کہ مجموعی ووٹ کا صرف 42فیصد بنتا ہے۔

2015کے انتخابات میں استور کے حلقہ 1میں کل 27699ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے خواتین کی تعداد اور مردوں کی تعداد رہی۔ انتخابات میں کل 11امیدواروں نے حصہ لیا۔ مقابلہ گزشتہ انتخابات کی طرح تین امیدواروں کے درمیان ہی رہا، تاہم چوتھے امیدوار نے بھی مونچھوں پر تاؤ لگایا اور بتادیا کہ کسی بھی وقت صورتحال پلٹ سکتی ہے۔ آزاد حیثیت میں میدان میں اترنے والے غلام عباس نے 1750 ووٹ حاصل کرلئے۔

پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالحمید خان نے 3808ووٹ حاصل کرلئے۔آزاد امیدوار محمد خالد خورشید نے 4019 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے رانا فرمان علی 5942ووٹ لیکر بھاری اکثریت سے اسمبلی پہنچ گئے۔ انتخابات میں 16081ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 58فیصد تھا۔ امکان یہی ہے کہ جون میں انتخابات ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ بہتر رہا ہے جبکہ آمدہ انتخابات نومبر میں ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔

حکومت سازی میں رانا فرمان علی کو حفیظ کی قربت حاصل ہوئی اور محکمہ بلدیات و دیہی ترقی کی وزارت ان کو سونپ دی گئی۔ خالد خورشید کچھ عرصہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور سرگرم رہنماء کے طور پر ابھرے اور تنظیم سازی کی تکمیل کے بعد خالد خورشید پی ٹی آئی دیامر استور ڈویژن کے صدر بن گئے۔

آمدہ انتخابات میں حلقہ 1استور سے 33378ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جن میں 15146خواتین اور 18232مرد ووٹر رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ حلقے میں کل 42پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں سے خواتین اور مردوں کے لئے 5,5الگ اور 32مخلوط سٹیشن ہیں۔ حلقے میں کل 74پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔

حلقہ نمبر13استور 1کی نشست کے لئے آمدہ انتخابات میں 12 امیدوار میدان میں اترے ہیں، جن میں سے 8آزاد امیدوار ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے خالدخورشید، پاکستان مسلم لیگ ن نے رانا فرمان علی، پاکستان پیپلزپارٹی نے عبدالحمید اور جماعت اسلامی نے عبدالرحمن کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اس حلقے میں آمدہ انتخابات یونین اتحاد کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں سب سے اہم اور بڑی یونین گدائی یونین ہے جہاں سے صاحب خان نے متعدد مرتبہ انتخابات جیتا ہے۔ آمدہ انتخابات میں گدائی یونین نے ڈاکٹر غلام عباس پر اتفاق کرکے سیاسی ہلچل پیدا کی ہے جو یقینا دیگر امیدواروں کے لئے امتحان ہے۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالحمید بھی اپنا مضبوط ووٹ بنک رکھے ہوئے ہیں اور کسی صورت اپنا ووٹ باہر جانے نہیں دے رہے ہیں۔ خالد خورشید کی پوزیشن 2009کی نسبت 2015میں مزید بہتر ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے ڈویژنل صدر بھی ہیں، ان کے ووٹ بنک پر پی ٹی آئی کی صورتحال کا اثر پڑے گا، اس حلقے سے ایک آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے بیرون ملک رہنما ہیں اور صرف خالدخورشید کے ووٹ کاٹنے کے لئے لڑرہے ہیں۔ رانا فرمان علی بھی مسلسل بہتر ووٹ لیتے آرہے ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے خلاف روایت حلقے کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے ہیں، استور کی معروف شخصیت محمد شفیع عرف دادا کی سرکار رانا فرمان علی کے لئے بہت نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے