انتخابات 2020: حلقہ نمبر 20غذر 2

حلقہ نمبر 20غذر2کا شمار رقبے کے اعتبار سے جی بی کے بڑے حلقوں میں ہوتا ہے۔ اس حلقے کا آغاز گلگت کے سرحد گلاب پور(گلاپور) سے شروع ہوتا ہے اور شندور تک پھیل جاتا ہے۔ یہ حلقے جغرافیائی اور سرحدی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جس کے درے بیک وقت کئی مختلف ممالک سے جا ملتے ہیں۔ جن میں ضلع دیامر کا علاقہ داریل، خیبرپختونخواہ کے علاقہ سوات، کوہستان، چترال، واخان کوریڈور و دیگر علاقے ہیں۔ یہ علاقہ شندور، خلتی جھیل، جو سردیوں میں جم جاتی ہے، وادی پھنڈر، سمیت متعدد مقامات کی وجہ سے سیاحوں کے لئے تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انتظامی اعتبار سے یہ حلقوں دو تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ سب ڈویژن پونیال کا بڑا رقبہ اس حلقے میں شامل ہے جبکہ سب ڈویژن گوپس پھنڈرکا پورا علاقہ اس حلقے میں شامل ہوتا ہے۔ مختلف وادیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس حلقے کے ووٹروں کا مجموعی رخ وسیع تنوع کا حامل ہے بالخصوص دو سب ڈویژن اپنے الگ الگ سفر پر گامزن رہتے ہیں۔

ضلع غذر کی بدلتی ہوئی انتظامی حیثیت کی وجہ سے یہاں کے حلقوں کی صورتحال بھی بدلتی رہی ہے۔ 1974میں غذر کو ضلع کا درجہ دیدیا گیا اور گلگت سے الگ کردیا گیا لیکن 4 سال بعد یعنی 1978میں ضیاء الحق نے اس ضلع کو تحلیل کردیا جسے بعد میں دوبارہ پیپلزپارٹی کی حکومت 1989میں بینظیر نے بحال کردیا اور ضلع بنادیا۔ یوں 1975 کے انتخابات میں الگ ضلع کی حیثیت سے سامنے آنے والا غذر 1991تک دوبارہ گلگت کا حصہ بنارہا اور 1991کے انتخابات میں دوبارہ ضلع کی حیثیت سے سامنے آگیا۔

1970میں پہلی مشاورتی کونسل بن گئی تو ضلع غذر کا یہ حلقہ گوپس اور یاسین پر مشتمل تھا جس میں سید فضل حسن نے نمائندگی کی۔ 1975میں ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات ہوئے تو فدا علی صاحب اس حلقے سے ممبر بن گئے۔ 1979 میں راجہ غلام دستگیر گوپس یاسین کے ممبر بن گئے۔ 1983کے انتخابات میں سید فضل حسن نے دوبارہ نمائندگی کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 1987 کے ا نتخابات میں سید فضل حسن نے مسلسل دوسری اور مجموعی طور پر تیسری مرتبہ جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ 1991 میں جب دوبارہ غذر الگ ضلع کے طور پر سامنے آیا تو گوپس اور یاسین کے اس حلقے سے غلام محمد فاتح قرار پائے۔

1994میں جماعتی بنیادوں پر پہلی مرتبہ انتخابات شروع ہوئے اور حلقوں کی تعداد بڑھائی گئی تویاسین کو الگ حلقہ بنادیا گیا اور گوپس کو پونیال کے ساتھ ملاکر ایک حلقہ بنادیا۔ یہ حلقے دریا کی تقسیم پر حلقہ 1غذر سے ا لگ ہوتا ہے۔ پہلے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات مرتضیٰ خان اس حلقے سے جیت گئے۔ 1999 کے انتخابات کا معرکہ سرفراز شاہ صاحب کے نام ہوگیا۔2004کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اس حلقے سے سلطان مدد جیت گئے اور اپنی سیٹ نوازشریف کو تحفے میں دیدی۔ سلطان مدد کا شمار کھرے سیاستدانوں میں ہوتا تھا اور مسلم لیگ ن کے حقیقی ورکر تھے تاہم حفیظ الرحمن کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر گزشتہ سال اپنی پارٹی بنائی تھی۔ سلطان مدد رواں سال 7مئی کو کرونا کی فضا میں دار فانی سے کوچ کرگئے۔

2009 کے انتخابات میں اس حلقے سے 32533ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے تھے جن میں 15272خواتین اور 17261مرد ووٹر تھے۔ انتخابی میدان میں 20 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں پانچ امیدوار تک 10 کا ہندسہ بھی عبور نہیں کرپائے جبکہ 7 امیدوار ایک ہزار سے کم ووٹ لے سکے۔ اس حلقے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر علی مدد شیر، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سلطان مدد، مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سرفراز شاہ لڑرہے تھے جبکہ بلبل جان، عطاء الرحمن،شوکت اکبر خان، میرغازی و دیگر آزاد حیثیت میں اترے تھے۔ میر غازی کے قسمت میں 1265ووٹ لکھے گئے، شوکت اکبر خان نے 1425ووٹ، سرفراز شاہ نے 1506ووٹ، عطاء الرحمن نے 1647ووٹ، سلطان مدد نے 1858ووٹ لئے۔ آزاد امیدوار بلبل جان نے 2186 ووٹ لئے جبکہ پیپلزپارٹی کے علی مدد شیر نے 3312ووٹ حاصل کئے اورپونیال، گوپس، پھنڈر کے فاتح قرار پائے۔ علی مدد شیر مہدی شاہ حکومت کے سرگرم وزیر رہے، انہیں وزارت تعلیم سمیت دیگر محکموں کی زمہ داری وقتاً فوقتاً دیدی گئی۔ علی مدد شیر نے اپنے دور میں وفاق سے ہزاروں کی تعداد میں آسامیاں منظور کراکے اپنے دیگر ممبران اور حکومتی ساتھیوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا تاہم منصفانہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے علی مدد شیر کے گلے پڑ گئے اور وہ اس حوالے سے بدنام رہے۔ گزشتہ حکومت میں علی مدد شیر کے خلاف متعدد مرتبہ تحقیقات کی گئی مگر علی مدد شیر اپنا دامن صاف ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس حلقے سے کل 16414 ووٹ کاسٹ ہوگئے جو کہ مجموعی ووٹ کا نصف سے کچھ زیادہ رہا۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے 34400ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے جن میں 15705خواتین اور 18695مرد شامل تھے۔ یہ حلقہ واحد حلقہ ہے جہاں پر 2009کے نسبت 2015 میں ووٹ بڑھا ہے باقی تمام حلقوں میں ووٹ کم ہوا ہے کیونکہ 2009 میں دستی رجسٹریشن نظام کی وجہ سے ایک بندہ ایک سے زائد مقامات پر ووٹ کاسٹ کرسکتا تھا اور جب 2015میں ون ووٹ ون پرسن نظام رائج ہوا تو تمام حلقوں سے ووٹ کم ہوگئے۔ حلقہ 20 غذر 2سے مذکورہ انتخابات میں کل 17 امیدواروں نے حصہ لیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے حلقہ سے عطاء الرحمن ایڈوکیٹ، پیپلزپارٹی نے علی مددشیر، مسلم لیگ ن نے سلطان مدد، آل پاکستان مسلم لیگ نے نور ولی خان، عام آدمی پارٹی نے میون خان جبکہ اہلسنت والجماعت/ راہ حق پارٹی نے فرمان ولی کو ٹکٹ جاری کیا۔ حلقے سے آزاد حیثیت میں اترنے و الوں میں نذیر ایڈوکیٹ، نادر خان، موسیٰ مدد، غلام اکبر، شمس الحق، ریاج ولی خان، رحیم خان، ناز نزیر خان، حضرت شاہ، عبدالکریم، اور فدا خان فدا شامل تھے۔ حلقے میں 7 امیدوار قابل زکر ووٹ نہیں لے سکے۔ موسیٰ مدد نے 964، فرمان ولی نے 1060، عطاء الرحمن ایڈوکیٹ نے 1286، نور ولی خان نے 1529، نذیر ایڈوکیٹ نے 1643، عبدالکریم نے 1835، علی مدد شیر نے 2048، نادر خان نے 2423 ووٹ حاصل کئے۔ حلقے میں مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سلطان مدد اور آزاد امیدوار فدا خان فدا کے درمیان ہوا۔ سلطان مدد نے 3362ووٹ حاصل کئے اور فدا خان فدا نے 4991ووٹ حاصل کئے۔ فدا خان فدا گوپس پھنڈر اتحاد کے متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے تھے جبکہ پونیال کا ووٹ مکمل طور پر تقسیم رہا جس کی وجہ سے فدا خان فدا کو سیٹ نکالنے میں آسانی ہوئی۔ فدا خان فدا نے الیکشن جیت کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی جسے حفیظ حکومت میں وزارت سیاحت کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ فدا خان فدا اسلام آباد ائیرپورٹ میں اپنا کوٹ جلاکر قومی میڈیا کی نظروں میں بھی آگئے تھے۔ 2015 کے انتخابات میں 11475 ووٹ کاسٹ ہوا جو کہ تناسب کے اعتبار سے مجموعی ووٹ کا 44.8فیصد تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ یہ واحد حلقہ ہے جہاں پر 2009کی نسبت 2015میں کم ووٹ پڑے ہیں حالانکہ مجموعی ووٹر زیادہ تھے۔

آمدہ انتخابات میں اس حلقے سے 42533ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے ہیں۔ جس میں 19244 خواتین اور 23286مرد رجسٹرڈ ہیں۔ اس حلقے سے 2احمدی مرد اور ایک احمدی خاتون بھی بطور اقلیتی ووٹر رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ ووٹ کے اعتبار سے یہ حلقہ گلگت بلتستان کا دوسرا بڑا حلقہ ہے جہاں اس حلقے سے صرف ضلع ہنزہ کا حلقہ 6آگے ہے۔ اس حلقے میں 58پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 21انتہائی حساس اور 21حساس قرار دئے گئے ہیں۔ انتخابی نشان حاصل کرنیو الے امیدواروں میں یہ حلقہ گلگت 2، نگر2کے ہمراہ سب سے زیادہ امیدواروں والا حلقہ ہے جس کی تعداد 26ہے تاہم اب تک متعدد امیدوار دستبرداری حاصل کرچکے ہیں۔ اس حلقے سے شہناز بھٹو کا شمار ان چار خواتین میں ہوتا ہے جو عام انتخابات کے لئے میدان میں اتری ہیں تاہم شہناز بھٹو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں اتری ہیں۔مسلم لیگ ق نے خان اکبر خان،جے یو آئی نے عبدالخالق، پیپلزپارٹی نے علی مدد شیر، مسلم لیگ ن نے فدا خان فدا کی بجائے محمد نظر خان، پی ٹی آئی نے نذیر ایڈوکیٹ کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ جبکہ قابل زکر آزاد امیدواروں میں بلبل جان، سلطان حمید ولد سلطان مددعطاء الرحمن، فدا خان فدا، موسیٰ مدد ودیگر شامل ہیں۔ حلقے کی تقسیم سب ڈویژن کی بنیاد پر ہے اور اکثر گوپس پھنڈر سب ڈویژن متفقہ امیدوار سامنے لاکر کامیاب ہوئی ہے اس کے علاوہ اس حلقے کی صورتحال واضح نہیں ہے کیونکہ آزاد حیثیت میں لڑنے والے امیدوار بھی 2ہزار تک ووٹ لے سکتے ہیں اور پارٹیوں کے امیدوار بھی مضبوط ہیں اور زور وشور سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے