پاکستان میں احمدی ہونا کیسا ہے؟

ایک انٹرویو میں سوال ہوا کہ پاکستان میں احمدی ہونا کیسا ہے؟اس سوال کا یک سطری جواب تو بہت آسان ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ گزرے وقتوں کے کچھ احوال بھی یاد آئے۔ سکول کے دن تھے تو کلاس میں ایک استاد بجائے پڑھانے کے ہم احمدی طلبہ کو تبلیغ کرتے رہتے کہ تم لوگ کافر ہو ،جہنم میں جلو گے ،مسلمان ہوجاؤ۔بحث چھڑ جاتی،گھر میں کتب موجود تھیں،ہم کتابیں پڑھتے اور اگلے دن کلاس میں استادمحترم سے سوال پوچھتے تو لاجواب ہوکر کہتے تم قادیانی بڑے تیز ہو،چلو کتابیں نکالو سبق پڑھتے ہیں۔استاد کی مہربانی کہ پوری کلاس کے سامنے ہمیں کافر کافر کہہ کر کفر سہنے کی ہماری وہ تربیت کی جو آئندہ زندگی میں بہت کام آئی۔اس کا آغاز ہم جماعت دوستوں سے ہوا جو استاد کی دیکھا دیکھی کافر کافر کہہ کر بلاتے۔گھر کی تربیت کام آئی اور ہم نے کبھی مڑ کر کسی کو جواب تک نہیں دیا۔توں آہو آہو آکھ!

کالج ایّام کی بات ہے۔استاد محترم مسلمانانِ عالم کے مسائل پہ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ارشاد ہوا کہ ہمارے نام نہاد علما نے بھی مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے،ان کی وجہ سے اسلام بدنام ہوا اور بے گناہ مارے گئے،اچانک انہیں احساس ہو ا کہ انہوں نے ریڈزون میں قدم رکھ دیا ہے اور کلاس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کل کو انہیں راہی ملک عدم کرسکتے ہیں تو انہوں نے یک دم پینترا بدلا اور وہی آزمودہ نسخہ استعمال کیا جس سے آپ سیاسی سماجی اور معاشرتی قسم کے تمام مسائل سے نبردآزما ہوسکتے ہیں۔گویا ہوئے کہ میں الحمدللہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں اور قادیانیت پہ لعنت،لعنت،لعنت!میں ان کے دائیں طرف والی سیٹوں پہ بیٹھا ہوا تھا۔میں نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ سرجی بس چوتھی دفعہ لعنت بھیجنے سے قبل اس قدر جان لیں کہ آپ کی کلاس میں ایک احمدی طالب علم بھی موجود ہے۔استاد محترم کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔کچھ دیر انہیں سمجھ ہی نہ آئی کہ انہوں نے کیا کیِا ہے۔پھر اگر مگر چونکہ چنانچہ کی بحر میں ایک بے وزن دو غزلہ ارشاد فرمایا ۔بہرحال استاد محترم کی مہربانی کہ ساری کلاس کو بار دگر علم ہوگیا کہ ایک کافر بھی ان کا کلاس فیلو ہے اور وہ مزید احتیاط برتنے لگے۔وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کلاس میں بورلیکچر سے بیزار ہوکر سونے کی کوشش میں تھے ۔ابھی نیند اور بیداری کے درمیان کی کوئی کیفیت تھی کہ دور سے آتی آواز میں ہمیں قادیانی ،کافر اور ختم ِ نبوت جیسے الفاظ سنائی دیئے۔نیند کی کیفیت جاتی رہی اور ہمہ تن گوش ہوکے سننے لگا۔استاد محترم ارشاد فرما رہے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ بہت سنہری اور امن و آشتی سے عبارت ہے۔آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ کبھی کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کو کافر نہیں کہا۔پہلی دفعہ ہم مسلمانوں نے اجتماعی طور پہ قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور انہی کی وجہ سے ہمیں نقصان بھی اٹھانے پڑے۔یہ لوگ ختم ِ نبوت کے منکر ہیں اور کافر ہیں۔استاد محترم کا وعظ ختم ہوا تو میں نے ہاتھ کھڑا کیا ۔فرمانے لگے کہ جی بیٹا ضرور آپ بھی اس بحث میں حصہ لیں۔میں نے کہا سرجی!پہلی بات یہ کہ میں احمدی ہوں جنہیں آپ قادیانی کہہ کر یاد فرماتے رہے اور میں ختم ِ نبوت کو بھی مانتا ہوں۔استاد محترم کے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا۔انہیں اس جوابی حملہ کی امید نہیں تھی ،نہ ہی وہ اس کی تیاری کرکے آئے تھے۔میں نے کہا سرجی احمدیت تو سوا سو سال پرانی بات ہے، آپ ایک دوسرے کو کافر تو قرن ِ اوّل سے کہتے آرہے،نہ صرف کہتے بلکہ تہہ تیغ کرتے آرہے ہیں ۔جہاں تک ختم نبوت کی بات ہے تو آپ ہی کے بزرگان شاہ ولی اللہ اور ابن عربی صاحبان یہ فرماتے ہیں۔عربی حوالہ جات تھے میں نے کلاس میں دہرا دیئے۔استاد محترم کے لیے یہ صورت حال بہت عجیب ہوگئی۔بہرحال انہوں نے ازسرنو کورس کی کتاب پڑھانی شروع کردی اور پھر کبھی اس حوالہ سے بات نہیں کی۔

ایسا نہیں کہ اس دوران ہمیں اچھے لوگ نہیں ملے۔بہت پیارے اساتذہ ملے اور زندگی بھر کے دوست بھی نصیب ہوئے،لیکن اکثریت بہرحال استاد محترم کے دین پہ عمل پیرا تھی۔ظلم کی انتہا تو یہ تھی کہ اس ’’ کافر‘‘ کی طرف سے چائے کی آفر بھی ٹھکرا دیتے تھے۔اب ہم چائے کون سا خود بناتے تھے جو شیزان والوں کی طرح اس میں ربوہ کے قبرستان کی مٹی بھی شامل کرتے،چائے تو کینٹین پہ بنتی تھی اور ویسے بھی چائے تو ہے بھی لادین اور شدید قسم کا ملحد۔کالج کے زمانے میں اور بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے لیکن ہم بہرحال خیروعافیت سے یونیورسٹی پہنچ گئے۔

یونیورسٹی میں ایک خوشگوار حیرت ڈاکٹر سلام اور چوہدری ظفراللہ خان صاحبان کی تصویریں دیکھ کر ہوئی۔سوچا کہ یہاں اچھی گزرے گی۔داخلہ فارم حاصل کیا تواس کی پیشانی پہ پہلا خانہ ہی مذہب کا تھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟سوچا کہ ’’سرکاری کافر‘‘ لکھ دوں پھر رہنے دیا اور جلی حروف میں احمدیت لکھ دیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے اور داد دیجیے میری دور اندیشی کی،واقعی یہ لکھنا کام بھی آیا۔ایک عادت شروع دن سے یہ رہی کہ کبھی کسی موقع پہ اپنا احمدی ہونا چھپایا نہیں اور الحمدللہ اس سے فائدہ ہی ہوا۔کبھی نقصان نہیں ہوا۔وقتی طور پہ تکلیف تو ہوتی ہے،لیکن اللہ تعالی کا فضل ہمیشہ شامل ِ حال رہا۔یونیورسٹی میں بھی سارے کلاس فیلوز اور اساتذہ کو اوّل دن سے ہی علم تھا کہ میرا عقیدہ کیا ہے۔اس کے باوجود بعض دوست اپنا دینی فریضہ سمجھ کر اساتذہ کےپاس باجماعت تشریف لے جاتے اور انہیں اطلاع کرتے کہ راشد ایک مستند کافر ہے،اس سے بچ کے رہیں !الحمدللہ اس کا بھی فائدہ ہوا کہ اگر کسی کو علم نہیں تھا تو اسے بھی پتہ لگ گیا۔اس سب کے باوجود اساتذہ کی طرف سے کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہوا،بہت شفقت محبت اور دوستی والا معاملہ رہا اور ہے،لیکن استثنا تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ایک استاد محترم کو جب علم ہوا کہ ایک کافر کھلم کھلا یونیورسٹی میں پھر رہا ہے تو وہ پوچھنے لگے کہ اس کافر کو داخلہ کیسے مل گیا،اس کو داخلہ دیا کس نے؟میں نے عرض کی کہ سر میں نے تو فارم کی پیشانی پہ خط کشیدہ الفاظ سے احمدی لکھا تھا،داخلہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دیا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ داخلہ کیسے ملا تو سر میرٹ کی بنیاد پہ ملا ہے۔۔۔یونیورسٹی کی تعلیم ہنوز جاری ہے اس لیے مزید واقعات خوف فساد خلق کی وجہ سنانے سے ادارہ معذرت خواہ ہے۔

ہمارے والد محترم کو ایک دفعہ سندھ سے ربوہ تک سائیکل سفر کی توفیق ملی۔وہ بتاتے ہیں کہ نواب شاہ کے قریب ایک ٹرک ہوٹل پہ سستانے اور چائے کے لیے رُکے۔چائے پینے کے بعد جب چلنے لگے تو ہوٹل مالک کو کسی طرح بھنک پڑگئی کہ یہ تو قادیانی باجماعت یہاں پھر رہے۔اس نے نہ صرف تشدد کیا بلکہ قافلہ کے جتنے لوگوں نے کپوں میں چائے پی،اس نے ان کپوں کے پیسے بھی وصول کیے۔ایں سعادت بزور بازو نیست

چائے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا کے توسط سے ایک لکھاری سے تعلق بنا جن کی تحریر کے ہم مداح تھے۔چائے پہ ملاقات طے ہوئی۔ملاقات پہ جانے سے قبل حسب روایت ہم نے انہیں آگاہ کیا کہ حضور میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور میں احمدی ہوں۔وہ میسج پڑھ کے کافی دیر خاموش رہے پھر گویا ہوئے کہ یار آپ نے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔بہرحال ابھی کے لیے معذرت پھر کبھی پروگرام بنائیں گے۔ان کا یہ پروگرام برسوں سے نہیں بنا اور شاید کبھی بھی نہ بنے۔ایسا بہت بار ہوا کہ دوستوں کو جیسے ہی معلوم پڑا کہ میں احمدی ہوں تو وہ یکسر تعلقات ختم کرگئے۔اسی وجہ سے اب یہ عادت ڈال لی ہے کہ دوستی سے قبل ہی احباب کو اپنا ’’سرکاری کافر‘‘ ہونا بتلا دیا جائے تاکہ بعد میں کسی کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔فیس بک کے تعارف والے خانے میں بھی یہی درج ہے،لیکن احباب کی سادگی دیکھیے تشریف لاتے ہیں،تحریر پڑھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم قادیانی ہو؟پہلے کیوں نہیں بتایا۔اقبال کا مصرعہ یاد آتا ہے۔تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا ،نہ وہ دنیا۔۔

ایک دفعہ کسی معاصر ویب سائٹ پہ اسلام سے متعلق ایک بحث جاری تھی۔میں نے بھی اس میں حصہ لیا اور اپنی فہم کے مطابق کچھ باتیں تحریر کیں جو مدیر محترم کی مہربانی سے شائع بھی ہوگئیں۔مضمون کی اشاعت کے بعد ایک صاحب کھوپچے میں تشریف لائےا ور فرمایا کہ آپ ایک قادیانی ہیں اور بات اسلام کی کر رہے ہیں۔اس عمل سے باز آجائیں ورنہ آپ کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوگا۔فرمایا کہ میرے پاس بہت سے جذباتی نوجوان آئے ہیں جو آپ کو ’’سبق‘‘ سکھانے کے لیے تیار ہیں۔خدا کے ان خود ساختہ ترجمانوں کو فہم کا بہت کم حصہ ودیعت ہوا ہے اس لیے ان سے مغزماری کا کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہوسکا ۔ایسے مہرباں بے شمار ہیں ،بس ایک کے تذکرہ پہ ہی اکتفا کرتے ہیں۔

سو پاکستان میں احمدی ہونا ایسا ہے جیسا آپ نے پڑھ لیا،لیکن الحمدللہ کبھی مایوسی کی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔کبھی کوئی خوف دامن گیر نہیں ہوا۔احباب بہت سمجھایا کیے کہ کوئی فیک آئی ڈی بنالیں،لیکن ہمیشہ اپنی حقیقی پہچان کے ساتھ اپنی بات کہی ہے۔جب خدائے بزرگ وبرتر کی رحمتیں ہر دم آپ کے شامل حال ہوں،اس سے دوستی ہو،آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہوں تو پھر کس بات کا خوف اور ڈر۔ایک دفعہ ایک انٹرویو میں یہی بات ایک صحافی نے پوچھی کہ اس سلوک پہ آپ مایوس ہوتے ہیں یا ملک اور قوم کی خدمت کا جذبہ آپ کے دل میں ابھرتا ہے؟میں نے کہا آپ کی موخرالذکر بات بہت درست ہے۔مایوسی سے ہم لوگ بہت دور ہیں۔قوم کا رویہ کیسا بھی ہو ہم ہمیشہ ملک و قوم کی خدمت پہ کمربستہ رہتے ہیں اور رہیں گے!موجودہ وبا میں بھی احمدی بڑھ چڑھ کر خدمت انسانیت میں مصروف ہیں۔رہے نام اللہ کا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے