اسرائیل سے تعلقات

اس معاملے پر احباب ری ایکشنری تبصرے کر رہے ہیں اور کم لوگ ہیں جو معاملے کے درست تناظر سے آگاہ ہیں۔ دوست ذیشان ہاشم نے معاملے کا درست معاشی تناظر فراہم کیا ہے۔ جن دوستوں نے ایڈورڈ سعید اور نوم چومسکی کو پڑھ رکھا ہے وہ عالمی استعمار کے اس بہ ظاہر ننھے لیکن دراصل کارگر ترین ایجنٹ اسرائیل کی حقیقت سے خوب واقف ہیں۔

اسرائیل ایک حقیقت ہے اور جب فلسطین دو ریاستی حل پر تیار ہے تو ہمیں بھی ہونا چاہیے۔ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطین نے دو ریاستی حل بھی تسلیم کیا اور اسرائیل سے تعلقات بھی قائم کیے۔ حماس اور اسلامی بنیاد پسندوں نے اوسلو معاہدے کی مخالفت کی اور اسرائیل بھی اوسلو معاہدے کے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔ یاسر عرفات کو بھی شاید اس نے دیراثر زہر دے کر مروا دیا۔ اوسلو معاہدے کی مخالفت ایڈورڈ سعید نے بھی کی لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ رہی سہی کسر اسامہ بن لائن نے نکالی اورسئلہ ء فلسطین کی منجی ہی ٹھوک کر رکھ دی۔

عرب بہار شروع ہوئی تو اسرائیل نے واضح طور پر عرب بادشاہتوں کا ساتھ دیا۔ سوائے شام کے، جس کی آمریت اسرائیل کے خلاف تھی۔ اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین انٹیلی جینس ٹیکنالوجی ہے اور وہ اسے دنیا کے ان ملکوں کو فروخت کرتا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں اور جن میں بھارت سرفہرست ہے۔

سعودی عرب میں شاہ سلمان کی آمد کے بعد ملوکیت کو تحفظ دینے میں اسرائیل کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق اقتدار پر پرنس محمد کی گرفت مضبوط کرنے میں بھی اسرائیل نے بھرپور مدد دی۔ اسلامی دنیا میں آمریت اور ملوکیت اسرائیل کو سوٹ کرتی ہے اور ٹرمپ بھی اسی کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا۔ شکر ہے کہ ٹرمپ جا رہا ہے مگر مشرق وسطیٰ سے متعلق بائیڈن کی پالیسی سامنے آنے میں وقت لگے گا۔اس دوران بڑے عرب ملک پاکستان کی ہائبرڈ رژیم کو بلیک میل کر کے اسے اسرائیل سے تعلقات بنانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

یاد رکھیے کہ اسرائیل سے تعلقات پاکستان کی جمہوری تحریک کے لیے بالکل بھی خوش گوار نہیں ہوں گے۔ ہماری ہائبرڈ رژیم سے اس کا اشتراک و تعاون ہماری جمہوری خواہشات کے لیے زہر قاتل ہوگا۔ پھر اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے کسی بڑی پیش کش کا اعلان بھی نہیں کیا جس پر اسے رعایت دی جائے۔

نیتن یاہو بھی ٹرمپ، مودی اور نیازی کی طرح ایک جمہوریت کش پاپولسٹ رہ نما ہے۔ اس کی رخصت کا انتظار کرنا چاہیے اور ایسے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں جو اوسلو معاہدے پر مکمل عمل کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے