خالد خورشید حکومت کا کمزور آغاز

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتی کابینہ کی حلف برداری میں شرکت کرکے اپنے کارکنوں اور عہدیداروں کا حوصلہ ضرور بڑھایا ہے لیکن دورہ ایک تقریر سے آگے نتیجہ نہیں دے سکا۔ ابھی تو پہاڑوں کے بیچ ان اعلانات کی گونج بھی باقی تھی جسے انتخابی مہم کے طور پر وزیراعظم پاکستان کے نمائندوں نے مختلف حلقوں اور ضلعوں میں جاکر کی تھی۔ گلگت بلتستان میں آکر بھی نوازشریف، آصف زرداری اور اسحاق ڈار کی منطق سمجھانا عجیب ہے۔ گلگت بلتستان کم از کم اس توقع میں ضرور بیٹھا تھا کہ وزیراعظم پاکستان لولے لنگڑے نظام، اپاہج مالی معاملات، سی پیک کے خدشات اور دیگر اہم معاملات پر کوئی خوشخبری سنائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ایک مہینہ کے اندر ہی وہ ساری چیزیں غائب ہوگئی جو تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے لئے اعلانات کی شکل میں چلائی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کمزور آغاز کیا۔ اتنی جلدی اس نہج پر پہنچنے کی توقع نہیں تھی۔ سیاسی اور حکومتی ’ہنی مون‘ پیریڈ تک اچھے اقدامات اور اعلانات کی توقع تھی۔خالد خورشید کے سیاسی و تعلیمی پس منظر اور ان کی قابلیت کی بنیاد پر نیک خواہشات کا سلسلہ بھی ابھی تھما نہیں تھا کہ حکومت کی گائیڈ لائن اور پالیسی واضح ہوگئی۔ یکم نومبر کو، یعنی محض ایک ماہ قبل، گلگت بلتستان کے یوم جشن آزادی میں شرکت کرکے عبوری صوبے کا اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی حلف برداری تقریب میں ’ایک اور کمیٹی‘ بٹھانے کا اعلان کردیا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران سیاسی اور آئینی طور پر بدل بدل کر سامنے آنے والے چیزیں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اگر مقتدر حلقے گلگت بلتستان کو صوبہ بناناچاہیں تو بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اگر اس میں بہانے تلاش کرنا چاہیں تو ہزار بہانیں ہیں مگر اس نعرے کو ایک مرتبہ پھر سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا گیا۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے متعلق کمیٹی بنانے کا تجربہ مسلم لیگ ن بھرپور طریقے سے کرچکی ہے جن کے سفارشات سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی پیش ہوئے ہیں۔ یوں بھی مقبوضہ کشمیر کے آئینی حیثیت پر بھارتی وار کے بعد اب لوگوں کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سمجھنے میں شاید ہی کوئی مشکل ہو۔ گلگت بلتستان کے تعلیم، صحت، مواصلات، اور میگا منصوبوں کے متعلق لب کشاہی تک نہیں کی گئی۔ ایسا بھی نہیں کہ وزیراعظم کو کسی نے بریف نہیں کیا ہوا کیونکہ اس کی خصوصی ٹیم ایک ماہ سے جی بی کے مختلف اضلاع میں بمعہ پروٹوکول گھومتی پھرتی نظر آرہی تھی۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں اس امر کی نشاندہی کردی تھی کہ کشمیر کاز کو نقصان دئے بغیر گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنائیں گے، اس قدم کے لئے اب کسی لیکچر یا حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیراعلیٰ جی بی خالد خورشید نے اس دکھ کا بھی اظہار کیا کہ گلگت بلتستان میں غیر ترقیاتی بجٹ بہت زیادہ ہے جس کو کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے، غیر ترقیاتی بجٹ کو کم سے کم کرنے کے لئے ہم اپنے دفتروں سے اس کا آغاز کریں گے۔ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ اور کابینہ غیر ترقیاتی بجٹ کو ختم کرے گی تاکہ اس بجٹ کو عوامی مفاد کے لئے کسی اور مقام پر لگایا جاسکے۔ جب کابینہ کا اعلان ہوگیا تو ہی سب کچھ صاف نظر آیا کہ کتنی کفایت شعاری کی گئی ہے، پہلے ہی جھٹکے میں 20افراد کو حکومت کا حصہ بنادیا گیا جس میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اسمبلی شامل نہیں ہیں۔ اگر ایک قدم پیچھے مڑکر انتخابی نتائج اور اسمبلی کے حلف والے دن پر نظر دوڑائیں تو 33 اراکین اسمبلی میں سے 20کا تعلق تحریک انصاف سے اور تین افراد کا تعلق اتحادی جماعت مجلس وحدت المسلمین سے ہے، یوں پہلے ہی قدم میں تحریک انصاف حکومت نے کفایت شعاری کی دھجیاں اڑائی اور اپنے حجم سے بھی بڑی کابینہ تشکیل دیدی۔

خالد خورشید سے بطور وزیراعلیٰ توقعات تھے کہ وہ میرٹ کو حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرائیں گے، اقرباء پروری اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی پالیسی ترک کریں گے لیکن کابینہ سازی میں میرٹ نظر نہیں آیا جس نے جہاں ہاتھ رکھا تھا وہی اس کو تھما دیا گیا۔ تحریک انصاف کو گلگت بلتستان میں زندہ رکھنے والے کسی کارکن اور عہدیدار کا نام کابینہ میں نظر نہیں آیا۔ اپنی ترجیحات پر مبنی فہرست کو انتخابات کے فوراً بعد تبدیل کرکے پی ٹی آئی کے جی بی میں سینئر ترین و مرکزی رہنما حشمت اللہ خان پر کلہاڑی چلائی گئی۔ حشمت اللہ خان ٹیکنوکریٹ اراکین کی فہرست میں دوسرے نمبر پر جبکہ صابر حسین، جسے اولین ٹکٹ ہولڈر کا اعزاز حاصل ہے، تیسرے نمبر پر تھے مگر اس فہرست کو تبدیل کرکے آخری نمبر سے مولانا فضل اللہ کو دوسرے نمبر پر لاکر کھڑا کردیا اور اسمبلی کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا گیا۔

اسمبلی میں اپنے پالیسی بیان کے وقت وزیراعلیٰ خالد خورشید نے جس طرح خواتین کے شعبے اور اس شعبے کی محرومیوں کا تذکرہ کیا محسوس ہورہا تھا کہ کم از کم حکومتی بنچوں میں بیٹھنے والی چاروں خواتین کابینہ کا حصہ ہوں گی۔ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اسمبلی پہنچنے والی دلشاد بانو کی سماجی خدمات اور خواتین کے لئے دی گئی خدمات کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور انہیں دنیا کی 1ہزار بااثر اور متحرک خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔ کلثوم فرمان بھی خواتین کے موضوع کو خوب سمجھتی ہے ماضی میں سماجی سرگرمیوں میں بھرپور متحرک رہی ہیں۔ ثریا زمان نے بھی کم عمرترین رکن اسمبلی ہونے کی وجہ سے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر خواتین کی نمائندگی کے لئے تحریک انصاف کے پاس کمزور ٹیم نہیں بلکہ مضبوط اور بہتر ٹیم موجود تھی لیکن حیرت انگیز طور پر خالد خورشید کابینہ میں خواتین کو یکسر نظر انداز کردیا گیا جو کہ اب تک حیرت کا سامان بنی ہوئی ہے۔

گندم سبسڈی کے متعلق بھی پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات کے دوران ایک لاکھ بوری گندم کا اضافہ کرنے والے حصہ میں سے صرف 2ٹرک ہی گلگت بلتستان پہنچے تھے باقی وہی سے کاٹے گئے ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں آٹا کی قلت اور بحران کا معاملہ سر اٹھارہا ہے۔ یہ صورتحال تحریک انصاف کے لئے خاصی مشکلات پیدا کرے گی۔ خالد خورشید اور تحریک انصاف کی کابینہ سے متعلق یہ حتمی رائے نہیں ہوسکتی ہے مگر اب تک چیزوں کو اچھی طرح چلایا جاسکتا تھا۔ آئندہ کے لئے بھی توقع ہے کہ تحریک انصاف کم از کم خلاف توقع اور اتنے کمزور فیصلوں پر کھڑی نہیں ہوگی۔ نیک خواہشات راکھ میں چنگاری کی مانند ہی سہی، زندہ ضرور ہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے تحریک انصاف کے پاس زبردست قوت اور مثبت اعشاریہ موجود ہیں جنہیں استعمال کرکے نتائج دے سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے