ٹویٹر والا وزیر اعظم اور سیاسی فلم انڈسٹری

آپ نے سب سے پہلے تو گھبرانا نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس جو وزراء اور ترجمانوں کی کھیپ اس بار آئی ہے وہ آپکو باقاعدہ انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے کے لیے ہی بلائی گئی ہے۔ چونکہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور ہمارے پاس ہمیشہ سے تفریح کی کمی رہی ہے تو ایک اچھا خاصہ بجٹ ہمارے ہینڈسم وزریراعظم نے عوام کی تفریح کے لیے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کی نظر کر کے احسان عظیم فرمایا ہے۔

خود وزیر اعظم بھی انٹرٹینمنٹ کے دلدادہ ہیں اور اکثر انہیں ٹی وی دیکھ کر ملک کے حالات کا اندازہ ہوتا ہے یا خاتون اول رہنمائی فرما رہی ہوتی ہیں ! خیر یہ سب کو پتہ ہے اور پرانا ہو چکا ہے

مارکیٹ میں نیا یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کا نیٹ فلکس اکاونٹ خیریت سے اور بغیر تعطل کے بڑے مزے سے چل رہا ہے تبھی ارطغرل غازی ہے بعد یونس ایمرے کو بھوک، غربت ، صحت اور تعلیم کے مسائل سے زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔

اصل میں میڈیا کی تھیوریز نے یہ بات ہمیں زمانہ طالب علمی میں سمجھا دی تھیں کہ بھیا کوئی بھی کسی بھی قسم کا کانٹینٹ ہو وہ آپکی دماغی حالت کو ایک بار چھیڑتا ضرور ہے۔

ان تھیوریز کے مجسم نمونے ہمارے وزیر اعظم ، صدر مملکت اور بے شمار ترجمان ہیں جو کسی بھی غیر ملکی کانٹینٹ پر اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ ٹویٹ کے ذریعے پوری قوم کو آگاہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اے میری غریب رعایا میں نے یہ فلانا سیزن دیکھ رہا ہے اور تم سب پر میری اتباع چونکہ فرض ہے اسلئے تم سب کو بھی ریاست کے امیر کی پیروی کرنا ہو گی۔

فردوس عاشق اعوان پر لگے کرپشن کے مبینہ الزامات پر ان سے معاون خصوصی برائے اطلاعات برائے وزیر اعظم عہدہ لینے کا ڈرامہ مکمل ہونے پر انہیں پھر سے وسیم اکرم پلس یعنی سپطان پنجاب کی ترجمانی کا منصب عطا کیا گیا۔

تمام ترجمانوں اور حکومتی پارٹی کی پالیسی کے تحت عوام الناس کو انکے مسائل کے حل کی تسلیاں دینے کے بجائے اپوزیشن پر لعن طعن و تبرا کرنے کا فرض اداد کرنے کے ساتھ محترمہ اب گلوکاروں کی ترجمانی بھی کرنے لگی ہیں انکا ایک ٹویٹ نظر سے گذرا جس میں وہ وارث بیگ کے صاحبزادے کے کسی گانے کی پروموشن کرتی دکھائی دیں۔ پھر صدر مملکت کا وہ یادگار ٹویٹ بھی سب کو یاد ہو گا جس میں شہنشاہ معظم نے ‘جوانی پھر نہیں آنی’فلم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔

وزیر اعظم تو گاہے بگاہے اپنے نیٹ فلکس اکاونٹ کی کارکردگی کو سیزنز عوام الناس کو ‘مسٹ واچ’ کے در پردہ اور کھلے حکم کے ساتھ سراہ رہے ہوتے ہیں۔

اسکے بعد اسی حکمران پارٹی نے ٹویٹر پر اپنے پسندیدہ اور نا پسندیدہ صحافیوں کی لسٹ جاری کرتے ہوئے جرنلزم کے طلباء اور صحافیوں کو کلاسیفکیشن تھیوری برائے جرنلسٹس سے بھی روشناس کرا دیا۔ تبدیلی تو واقعی آگئی ہے۔ کہ ہمارے صدر ، وزیر اعظم اور معاونین سب کے سب غیر ملکی انٹرٹینمنٹ سائٹس اور کسی حد تک ملکی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو ہی اصل مسائل کا حل گردانتے ہوئے ترغیبات دینے میں مشغول ہیں۔

شاید مستقبل کی ان حکومتی لمبی پالیسیوں کو میرا کند ذہن سمجھ نہیں پا رہا یا حکمرانوں کو لگتا ہے کہ بھوک اور بنیادی سہولیات کی بجائے کانٹینٹ کی کمی ہمارا اصل مسلہ ہے۔ خیر کچھ تو ہے

لیکن نیٹ فلکس سے پیار کرنے والے وزیر اعظم اور گانوں سے پیار کرنے والے ترجمانوں کو شاید کسی سیانے مشیر نے یہ نہیں بتایا کہ ملکی میڈیا سمیت یہ انٹرٹینمٹ اور اس سے جڑئ تمام چیزیں ماس کمیونیکیشن کی شاخیں ہیں اور آپ اپنے ملکی میڈیا سے بیر لے کر ایک طرف تو ورکر صحافیوں کے چولہے ٹھنڈے کر چکے ہیں اور دوسری جانب مجھ جیسے ہزاروں صحافت کے طالب علموں کو کنفیوژ کر رہے ہیں

حضور ! محترم عمران خان اگر بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کو بھولنے کے لیے ہمیں یونس ایمرے اور ارطغرل غازی جیسے سیزنز دیکھنا لازم ہیں تو جناب انٹرنیٹ فری کروا دیں ہمارا نیٹ فلکس اکاونٹ آپکی طرح فری اور فاسٹ نہیں
منجانب : دکھیاری عوام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے