ان دنوں فون کی گھنٹی بجتی ہے تو یا اللہ خیر کہہ کر فون اٹھاتا ہوں کیونکہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب کوئی بری خبر سننے کو نہ ملتی ہو۔ ایک دن اسلام آباد سے حمید شاہد کا فون آیا کہ مسعود مفتی کا انتقال ہو گیا ہے، ایسی اور بھی بہت سی بری خبریں گاہے گاہے سننے کو ملتی ہیں لیکن مفتی صاحب کی وفات کا سن کر مجھے ذاتی صدمے کے علاوہ قومی صدمہ بھی محسوس ہوا۔ قومی کے حوالے سے یوں کہ ہمارے ادیب بلاشبہ محب ِ وطن ہیں مگر ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے قومی سانحات کا دکھ زندگی کی آخری سانس تک محسوس کیا ہو۔ مجھے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسعود مفتی کتنے بڑے افسانہ نگار تھے کہ ان کا شمار ہمارے چند قابل ذکر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے مگر ایک دکھ انہوں نے اتنا زیادہ پالا کہ زندگی کے ہر دور میں اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
یہ دکھ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں پر ہونے والے مسلسل مظالم اور ان کی حق تلفیوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا تھا۔ ان دنوں مسعود مفتی مشرقی پاکستان میں سیکرٹری ایجوکیشن کے عہدے پر فائز تھے اور جب جنرل نیازی نے انڈین جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اپنے بزدل کمانڈر کے حکم پر ایک ڈسپلن کے تحت ان بہادر فوجیوں کو بھی اپنے ہتھیار زمین پر پھینک کر جنرل اروڑہ کے سامنے آنکھیں نیچی کر کے کھڑا ہونا پڑا جن میں سے بہت سے شہادت کے درجے پر فائز ہونا چاہتے تھے، جس سے پاکستان کی بہترین فوج کا امیج مجروح نہ ہوتا، چنانچہ ہتھیار زمین پر پھینکتے وقت ان کے چہروں پہ شدید غم، دکھ اور بے بسی کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ شاید یہ اور دیگر بہت سے مناظر ایسے تھے جن کی وجہ سے مسعود مفتی کے قلم سے لفظوں کی جگہ آنسو بہنے لگے۔
صدیق سالک نے بھی ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، جس میں جنرل نیازی کے بہت سے واقعات قلمبند کئے، حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ اس حوالے سے ایک مستند حوالہ ہے، اس کے علاوہ بھی اس عظیم قومی سانحہ پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن کے الفاظ ایک زخم کی طرح دل پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں۔
مسعود مفتی نے صرف نوحہ خوانی نہیں کی بلکہ قوم کو بیدار کرنے کے لئے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔ میں نے ایک ملاقات کے دوران ان سے عرض کی کہ آپ کا جذبہ قابل صد ستائش ہے مگر آپ اپنا وقت ضائع کریں گے (جس طرح ان دنوں درد دل رکھنے والا لاجواب سنگر جواد احمد کر رہا ہے) کیونکہ لوگ ایک ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلیں گے جو آپ کے بارے میں یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کتنے بڑے افسانہ نگار ہیں، آپ کون ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کرتے رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے پاس سرمایہ بھی نہیں ہے اور کوئی ڈھنگ کا سیاسی چہرہ بھی نہیں ہے جو آپ کے ساتھ چل سکے اور لوگ اس کے پیچھے چل سکیں۔ مگر مفتی صاحب کا کہنا تھا وہی جو احمد فراز نے کہا تھا ؎
شکوئہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مگر یہ جلائی گئی شمع کچھ عرصے بعد بجھ گئی۔ شمع تو بجھ گئی مگر مسعود مفتی کی کتابیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ظلم اپنے بچے ضرور دیتا ہے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آتا ہے۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ممتاز شاعر نصیر ترابی نے جس گھڑی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر سنی، وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے اور اُنہوں نے فی البدیہہ ایک غزل کہی جو اگلے کالم میں آپ کی نذر کریں گے، فی الحال آپ خوبصورت نوجوان شاعر ابرار ندیم کی نظم ’’16؍ دسمبر 1971ء‘‘ پڑھئے۔
دعائیں بین کرتی ہیں!
مرے مالک، مرے مولا
یہ کیا منظر ہے جو آنکھوں نے دیکھا ہے
مگر دیکھا نہیں جاتا
یہ اِک لمحہ قیامت کا
کئی صدیوں پہ بھاری ہے
فضا میں ہر طرف جیسے
سکوتِ مرگ طاری ہے
عجب اک ہو کا عالم ہے
رگوں میں خون نہیں شاید
مسلسل درد جاری ہے
مگر یہ بے بسی اپنی !
بہت رونے کی خواہش ہے
مگر رویا نہیں جاتا
کسی نے دل کے آنگن میں
مسل کر میرے خوابوں کو
مرے دل کے نہاں خانوں میں ایسا خوف بویا ہے
تھکن سے چور ہیں آنکھیں
مگر سویا نہیں جاتا
خزاں کے سرد موسم میں
بہت تاریک راتوں میں
مرے اجڑے چمن میں
چار سو پھولوں کا ماتم ہے
مرے چاروں طرف جیسے
کلیجہ چیرتی ٹھنڈی ہوائیں بین کرتی ہیں
لئے ہاتھوں میں اپنے پھول سی نوخیز کلیوں کو
کفن دے کر پیشانی چومتی بے حال مائیں بین کرتی ہیں
فلک خاموش ہے لیکن دعائیں بین کرتی ہیں
بشکریہ جنگ نیوز