ہر انسان‘ ہر شے خول میں بند

اکیسویں صدی شروع ہوئی اور دنیا کے سب سے بڑے سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی کتاب مارکیٹ میں آ گئی۔ اس کا نام ہے The Universe in a Nutshell۔ یعنی جس طرح اخروٹ کے سخت چھلکے کے اندر اس کا مغز بند ہوتا ہے‘ اسی طرح کائنات بھی ایک سخت ترین حصار میں بند ہے۔ میں نے یہ کتاب خریدی۔ کائنات کے مناظر کی خوبصورت تصاویر پر مشتمل اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اہم اقتباسات پر نشانات لگائے۔ جب میں قرآن میں ”فَلَقْ‘‘ کے لفظ پر غور و فکر اور تحقیق کر رہا تھا تو مذکورہ کتاب یاد آئی۔ اسے اپنے سامنے رکھا، صفحہ 99 پر اپنے لگائے ہوئے نشان پر نظر پڑی۔ سٹیفن ہاکنگ نے جو لکھا‘ ملاحظہ ہو:
We could be bounded in a nutshell and still count ourselves kings of infinite space.
ترجمہ: ہمارا حال یہ ہے کہ ہم (ایک کائناتی) خول میں بند لگتے ہیں جبکہ ہم (ایسے بھولے اور سادہ لوح ہیں) کو اپنے آپ کو لامحدود خلا کا بادشاہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

قارئین کرام! 21 ویں صدی کے آغاز تک کا سب سے بڑا سائنسدان آج یعنی موجودہ صدی میں یہ بات کر رہا ہے تو اس کے پیچھے صدیوں کا وراثتی علم ہے جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکا ہے کہ کائنات ایک خول میں بند لگتی ہے۔ اسے ابھی ایسا لگتا ہے یعنی تھوڑا سا شک باقی ہے جبکہ ساڑھے چودہ سو سال قبل صحرا اور خشک پہاڑوں پر مشتمل علاقے میں ایک عظیم ہستی تشریف لائی۔ جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد کریمﷺ ہے۔ جس قوم میں آپﷺ تشریف لائے‘ وہ اَن پڑھ قوم تھی۔ خود آپ حضورﷺ کا دنیا میں کوئی استاد‘ کوئی معلم نہیں رہا۔ جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے آپﷺ کا استاد اور معلم خود اللہ تعالیٰ ہے۔ آپﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی‘ اس کا نام قرآن ہے، اس میں ایک سورۃ الرحمن ہے‘ جس میں مولا کریم فرماتے ہیں: ”اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم ایسی قوت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین (کائنات) کے کناروں (حصار اور خول) سے نکل بھاگو تو نکل کر دکھلائو۔ (یاد رکھو) تم غلبے کے سوا نہیں نکل سکتے (اور یہ کہاں؟) (رحمن:33)

جی ہاں! سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ ہم تو یہاں بند اور قیدی ہیں۔ یعنی کُل کائنات ایک بند جیل ہے۔ قرآن نے آج کے ہاکنگ کا شک دور کیا ہے کہ یقینی بات یہی ہے کہ کائنات ایک حصار میں محصور ہے۔ میں کہتا ہوں کلمہ پڑھ کر دن رات حضورﷺ پر درود پاک بھیجا جائے‘ تب بھی حق ادا نہ ہو۔

قرآن بتاتا ہے کہ کائنات کی ہر شے حصار اور خول میں بند ہے۔ حصار اور خول کو اللہ پھاڑتا ہے۔ اک نئی مخلوق وجود میں آتی ہے اور وہ نئی مخلوق بھی اک خول ہی میں بند ہوتی ہے۔ تخلیق کا عمل پھٹنے سے ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ قرآن میں اس کے لیے ”فَلَقْ‘‘ کا لفظ آیا ہے اور یہ چار بار آیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ”بلا شبہ اللہ ہی دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے‘‘ (الانعام:95) یہاں اللہ کے لیے ”فَالِقْ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی شے کو پھاڑتا ہے تو اس میں ایک نئی تخلیق کا مکمل ڈیزائن ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر بھی ہوتی ہے اور برکت بھی۔ اگلی ہی آیت میں ”فَالِقُ الْاِصْبَاحِ‘‘ آیا کہ وہ صبح کو (رات کے پردے سے) پھاڑ کر نمودار کرنے والا ہے۔ پھر اگلی آیات میں انسانوں، نباتات، دانوں، بیجوں اور پھلوں کا تذکرہ فرمایا کہ یہ سب پھٹ کر ہی نکلتے ہیں۔ ترمذی شریف میں حدیث‘ جس کی سند صحیح ہے اور نمبر 376،مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی صُلب یعنی پشت میں تھے۔ جی ہاں! وہیں سے پشت در پشت اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے جا رہے ہیں یعنی صلب میں بھی بند ہیں۔

وہاں سے نکلتے ہیں تو رحمِ مادر میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں قرآن کہتا ہے کہ تین اندھیرے پردوں میں ہوتے ہیں یعنی بند ہی بند۔ اور پھر جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو پانی کی تھیلی‘ جس میں وہ بند ہوتا ہے‘ پھٹتی ہے اور بچہ دنیا میں آ جاتا ہے۔ زمین ایک بڑی جگہ ہے مگر فضائی غلاف اور اوزون کے غلاف میں بند ہے۔ مقناطیسی گوند نے انسانی قدموں کو اپنے ساتھ چمٹا کر رکھا ہوا ہے یعنی بند ہی بند اور پابند ہی پابند۔ ہر ممالیہ جاندار کا بچہ ایسے ہی بند اور پابند پیدا ہوتا ہے۔

چیونٹی بھی انڈے دیتی ہے۔ اس سے چھوٹی بے شمار مخلوقات انڈے دیتی ہیں۔ ایسے انڈے کہ ہماری نگاہیں دیکھ بھی نہ سکیں۔ مرغی کے انڈے تو ہمارے سامنے ہیں۔ پرندوں کے انڈے بھی۔ انڈہ کیا ہے‘ بند ہے۔ اس میں بچہ اپنی چونچ سے ضرب لگاتا ہے اور زمین پر آ جاتا ہے۔ بڑا ہوتا ہے تو کئی درجن انڈے دے کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے یعنی ہر کوئی بند اور پابند۔ خول پھٹتا ہے اور دنیا میں آ جاتا ہے۔ آگے بڑھئے! سبزیوں، اناج اور پھلوں وغیرہ کے درخت اور پودوں کے بیج پردوں میں بند- زمین میں پھٹتے ہیں۔ باہر نکل کر نسل بڑھاتے ہیں۔ گندم کا دانہ خود تو زمین میں ختم ہو جاتا ہے مگر جو پودا اس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے وہ سات سو اور اس سے بھی بڑھ کر دانے دیتا ہے۔ کھجور کے درخت کی ہر کھجور ایک گٹھلی دے کر جاتی ہے تا کہ نسل آگے چلے۔ جی ہاں! کائنات بھی توعظیم دھماکے (Big Bang) سے پھٹی تھی مگر کیا خوب تھی کہ اس کے پھٹنے کے بعد اس میں ہر شے پھٹ کر تخلیق کے عمل کو آگے بڑھا رہی ہے۔ لوگو! فَالِقْ‘ چیزوں کو پھاڑنے والا ایک ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ سے فرماتے ہیں‘ میرے پیارے نبی! خود اعلان کر کے ساری امت کو سبق پڑھا دو کہ پھاڑنے کا یہ جو خوبصورت تخلیقی کام کرنے والا وہ ایک ہے‘ اس رب کی پناہ مانگا کرو۔ جی ہاں! ”سورۃ اَلْفَلَق‘‘ پڑھ لو۔ صبح و شام پڑھا کرو۔ جنّاتی اور انسانی شیطانوں سے اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے گا۔ (ان شاء اللہ)۔ ایک مقام ”سورۃ الشعراء‘‘ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: اپنی لاٹھی بحرِ قلزم (Red Sea) کے پانی پر مارو۔ لاٹھی ماری تو دونوں جانب پانی کے پہاڑ بن کر کھڑے ہو گئے۔ درمیان میں خشک راستہ بن گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام لاکھوں بنو اسرائیلیوں کے ساتھ غلامی کی سر زمین سے نکل کر آزاد ہو گئے۔ فرعون نے بھی اپنا لشکر اسی راستے پر ڈالا۔ اسے تکلیف تھی کہ میری غلامی اور قید سے یہ آزاد کیونکر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ برداشت نہیں کہ انسان کسی دوسرے انسان کو ظلم کے ساتھ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے۔ اللہ نے حکم دیا، وہی لاٹھی دوبارہ برسی اور پانیوں کے پہاڑ پھٹ گئے اور سارے لشکر کو اپنے اندر ڈبو ڈبو کر مار دیا۔

لوگو! حضورﷺ نے اس دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ فرمایا ہے مگر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکموں کا انکار کر کے ظالم یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ یہی اصل زندگی ہے۔ وہ انسانوں کے حق مار رہا ہے کہ اس زندگی کو راحت بخش بنا لے۔ جھوٹ، بد دیانتی، قتل اور ظلم کر کے پیسے سے خرید لے۔ مگر کب تک؟ اللہ فرماتے ہیں: ”(میرے پیارے رسولﷺ) کاش! کبھی آپ وہ منظر دیکھیں کہ جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلائے (کہہ رہے ہوتے ہیں) اپنے آپ کو (اس جِسم سے) باہر نکالو۔ آج تمہیں رسوا کن سزا کا بدلہ ملنا ہے‘‘۔ (الانعام:93) اللہ اللہ! اور پھر فرشتوں کے ہاتھ سارے جسم کے کھربوں خلیات کو جکڑ لیتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس کہتی ہے: حیران کن طور پر تمام خلیات یک دم جکڑے جاتے ہیں اور بے بس ہو کر ناکارہ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں! فرشتوں کے ہاتھ پڑتے ہی خلیات پھٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دماغ کے اس حصے میں جو دیکھنے کا چیمبر ہے‘ وہاں سرگرمی انتہائی تیز ہو جاتی ہے اور پھر آخری ہچکی کے بعد وہاں مزید تیزی اور پھر اپنے آپ کو جابر و قاہر سمجھنے والا اللہ تعالیٰ کے سخت گیر فرشتوں کے ہاتھوں سے منہ اور کمر پر ماریں کھاتا ہوا مزید سزا کی جگہ پر جا پہنچتا ہے۔

سٹیفن ہاکنگ اپنی کتاب کے صفحہ 96 پر لکھتے ہیں: اس کائنات کا خاتمہ اس طرح ہو گا کہ کائنات کا مادہ پہلے سست ہو گا پھر رک جائے گا، پھر الٹا سفر شروع کر دے گا۔ اللہ اللہ! میرے حضورﷺ نے قیامت کی نشانی بتائی کہ سورج مغرب سے نکلے گا۔ سٹیفن ہاکنگ کتاب کے صفحہ 97 پر لکھتے ہیں کہ آئن سٹائن نے کہا کہ کائنات مستقل رہے گی‘ یہ میری عظیم ترین غلطی (greatest mistake) تھی۔ لوگو! ہر شئے عارضی اور بند ہے۔ اس کا انجام فنا و خاتمہ ہے۔ اصلی اور حقیقی آزادی موت کے بعد ہے۔ کیسے؟ پھر کسی لمحے۔ تب تک کے لیے اللہ حافظ!

بشکریہ دنیا نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے