71ء کی شکست میں جنرل نیازی کا کردار

ہم نے پاکستان میں ریاست اور جنگ کے اصول دھندلا دیے ہیں۔ ہمیں آزادی کے موقع پر جو فوج ملی تھی اس کے بہت سے سپاہیوں نے دوسری عالمی جنگ میں یورپ، برما، سنگاپور اور شمالی افریقہ کے محاذوں پر جنگ لڑی تھی۔ ہم جنگ کے اصول سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ ہماری ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ ہوئی۔ جنگ کے دوران بھی دونوں ملکوں نے اس معاہدے کی پابندی کی کہ ایک دوسرے کے شہریوں پر دانستہ حملہ نہیں کیا جائے گا۔ بستیوں پر بم نہیں پھینکے جائیں گے۔ شہریوں کو ہلاک نہیں کیا جائے گا۔اس لئے کہ دو ریاستوں میں تنازع ہو گیا۔ یہ اپنے قومی مفادات کے لئے جنگ تھی۔ ریاستوں نے ایک موقف اختیار کیا اور پھر اس موقف کی پاس داری میں جنگ تک نوبت آئی ۔ یہ کسی عقیدے کی بالا دستی کے لئے لڑائی نہیں تھی۔ ان جنگوں کے مقاصد طے تھے۔

فرانس کے نامور سیاستدان جارج کلے منشو نے کہا تھا کہ جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے محض فوجی کمانڈروں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ دفاع ریاست کا ایک شعبہ ہے۔ ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں حتمی فیصلے کرے۔ جنگ ایک سیاسی فیصلہ ہے اسے محض تکنیکی مہارت رکھنے والے پیشہ ور سپاہیوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سیاسی تدبر پاکستان کے رہنماؤں میں بھی موجود رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے میجر جنرل اکبر خان سے کہا تھا کہ تمہارا کام قومی رہنماؤں کو پالیسی بتانا نہیں۔ قائد اعظم نے کوئٹہ میں زیر تربیت افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا کام حکم کی تعمیل کرنا ہے۔ قائد اعظم ہی نے ہمیں ضمانت دی تھی کہ شہریوں کے عقیدے کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اتنی دور رس آنکھ رکھتے تھے کہ انہوں نے ہمیں بتا دیا تھا کہ ایک روز تم لوگ مذہبی طور پر ہندو اور مسلمان تو رہو گے لیکن سیاسی طور پر پاکستان کے شہری بن جاؤ گے اور تم بہت ترقی کرو گے۔قائد اعظم نے جو فرمایا ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے بانی سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہم پاکستان کے رہنے والوں کی حفاظت کریں گے اور ان کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھیں گے اور ان کی خوش حالی کے لئے کام کریں گے۔ ہم ایک دوسرے کو جواب دہ ہیں۔ کوئی بلوچی زبان بولتا ہے یا سندھی۔ کوئی مندر میں جاتا ہے یا مسجد میں۔ کوئی تہمد باندھتا ہے یا شلوار پہنتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو برابر کا پاکستانی شہری تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

سیاسی رہنما جنگ کے فیصلے کرتے ہوئے اپنے آپ سے ایک سوال پوچھتا ہے۔ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ کیا یہ جنگ ضروری ہے؟ یہ جنگ جیتنے کے بعد کیا ہوگا؟ منتخب سیاسی رہنما ریاست کے قوم کے مجموعی نصب العین کا محافظ ہے۔ 1996 میں فوجی قیادت نے بینظیر بھٹو کے سامنے کارگل کا منصوبہ رکھا۔وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے منصوبہ پڑھا، زبر دست جنگی حکمت عملی کی تعریف کی اور پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا چنانچہ اس منصوبے پہ عمل نہیں کیا گیا۔ فروری 1999 میں وزیراعظم نواز شریف سے پوچھے بغیر اس منصوبے پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ کم از کم نواز شریف یہی کہتے ہیں کہ انہیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کے وزیراعظم کو چار جولائی 1999 کو امریکی صدر کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ یہی وہ ملاقات تھی جس سے بینظیر بھٹو بچانا چاہتی تھیں۔ فوجی کمانڈر اپنے مورچے کو جانتا ہے، اپنے محاذ کی حکمت عملی سمجھتا ہے۔ ہتھیاروں کی اہمیت جانتا ہے۔ زمین کا استعمال سمجھتا ہے۔ نفری کی تعیناتی کے معاملات جانتا ہے۔ فوجی رہنما معیشت، سفارت کاری اور تمدن کے معاملات کے لئے ذمہ دار نہیں ہوتا۔ جمہوری رہنما کی میز پر یہ سب سوال رکھے ہوتے ہیں۔

1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سیاست دان نے کراچی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کا رشتہ توڑ ڈالا ہے۔غلام محمد نے جنرل ایوب خان کی مدد سے اسمبلی توڑی ہے، فوج میں مغربی پاکستان کی اکثریت ہے، اگر فوج کو ریاست کے فیصلے کرنا ہیں تو ہم آپ کے ساتھ کیسے چلیں گے؟ حوالے کے لئے محترم آصف جیلانی اور سلیم عاصمی صاحب سے گواہی لے لیجئے۔ سیاسی آنکھ ربع صدی آگے دیکھتی ہے۔ لان میں اگتی ہوئی گھاس کی آواز سیاستدان کے کان سن سکتے ہیں۔ صاحب زادہ یعقوب علی خان نے میجر صدیق سالک سے کہا تھا کہ میں جنگ لڑنا جانتا ہوں، شیخ مجیب الرحمٰن کا بیان میری سمجھ میں نہیں آتا۔ صاحب زادہ یعقوب علی خان صاحبِ علم کمانڈر تھے۔ وہ سقراط جیسے انکسار سے یہ تسلیم کر رہے تھے کہ عسکری تربیت اور چیز ہے اور سیاسی تربیت مختلف بات ہے۔ ہم نے 1958 میں مارشل لا لگایا تو دراصل 1954 میں کی گئی پیش گوئی کا اگلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔

الطاف گوہر مشرقی پاکستان میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے، لکھتے ہیں کہ نوجوان سیاسی رہنما مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان کو کالونی قرار دیتا تھا۔ مجیب الرحمٰن نے جو شکوہ کیا تھا فوجی حکومت اس شکایت کی تصدیق تھی۔ ہماری حکومت کا آئینی جواز ختم ہوگیا تو قوموں کی برادری میں ہماری ناک کٹ گئی۔ ہم پاکستان کے اخبارات میں گوشت کی دکانوں میں جالیاں لگنے کی کہانی لکھ رہے تھے۔ نالیوں پر چونا چھڑکا جا رہا تھا۔ غیر ملکی کپڑوں کی قیمت گر گئی تھی۔ دنیا بھر کے سفارت خانوں میں پاکستان کے نمائندوں کا وقار گر گیا تھا۔ ہم نے حسین شہید سہروردی کی بات نہیں سنی۔ ہم نے مانک میاں کا اداریہ نہیں پڑھا، ہم نے شہید اللہ قیصر کا افسانہ نہیں پڑھا۔ ہم نے زین العابدین کی مصوری پر غور نہیں کیا۔ ہم نے بلبل چوہدری کے رقص کو ناچ گانا قرار دیا۔ ہم نے جنرل اعظم خان کی خوش اخلاقی کے گیت گائے۔ ہم نے راؤ فرمان علی کے دفتر کا حال نہیں دیکھا۔ ہم 1971 کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے یہ لڑائی ہار گئے تھے کیوں کہ ہمارے سیاسی رہنما مارشل لا حکومت کی دہلیز پر بیٹھے عوام کے حق حکمرانی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 سیٹیں جیتنے والی عوامی لیگ کو غدار قرار دے دیا۔

ہم ڈھاکہ کے جی ایچ کیو سے وہی مطالبہ کرتے تھے جو ہم پاکستان کے فارن آفس سے آج کل کیا کرتے ہیں۔ جنگ تجارت کی منڈی میں لڑی جاتی ہے، سٹاک ایکسچینج میں لڑی جاتی ہے، یونیورسٹی میں لڑی جاتی ہے، سفارت خانے میں لڑی جاتی ہے، ثقافت کے میدان میں لڑی جاتی ہے، ہم نے درس گاہ کو بز اخفش کا آموختہ بنایا دیا۔ ثقافت کو ڈوم ڈھاری کا طائفہ بنا دیا۔ سفارت کار سے دلیل چھین لی، سیاسی رہنما کو مفاد پرست اور بدعنوان کا نام دے دیا۔ صحافی کو غداری کی دھمکی دے دی۔ پارلیمنٹ کو پہلے مچھلی منڈی قرار دیا پھر پارلیمنٹ سے بازار حسن کا تلازمہ بیان کیا۔ ہم نے پاکستان کی قومی ریاست میں شہریوں کے ساتھ تعلق کی جو لڑائی ہاری تھی اسے منبر اور محراب پر جیتنے کی کوشش کی۔ آج بھی پاکستان میں ہندو شہری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ ہندوستان میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمان ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی ریاست میں کشمیر کے خطے پر تنازع موجود ہے۔ یہ تنازع اقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہے۔ ان قراردادوں ہی کا حصہ شملہ معاہدہ ہے جس میں ہم نے دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ تنازع حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر پاکستان اور بھارت کا ریاستی اختلاف مذہب کی بنیاد پر ہے تو ہم نے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر اپنا دعویٰ کب واپس لیا؟

ہندوستان کی تقسیم ستر برس پیچھے کا قصہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دو ریاستیں ہیں۔ اگر ان میں کوئی تنازع پایا جاتا ہے تو وہ دو ریاستوں کا جھگڑا ہے۔ یہ ہندو اور مسلمان کا جھگڑا نہیں۔ ہم نے مشرقی پاکستان کے ساتھ سیاسی لڑائی کو مشرقی پاکستان کی ہندو آبادی کے خلاف مقدمے میں بدلنے کی کوشش کی۔ جوگندر ناتھ منڈل نے پاکستان چھوڑتے ہوئے جو خط لکھا تھا اسے ایک دفعہ پھر پڑھ لیجئے۔ ہمیں کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ اختلاف کو مذہب کی عینک کے ساتھ دیکھنے کی کوشش ترک کر دینی چاہئے۔ افغانستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس وقت افغانستان کے ساتھ ہمارے موجودہ تعلقات چشم کشا ہیں۔ ایران میں مسلمان بستے ہیں۔ پچھلے چالیس برس میں ایران کے ساتھ تعلقات پر غور کیجئے۔

30 جنوری1971 کو ہاشم اور اشرف بھارتی طیارہ گنگا اغوا کر کے لاہور لائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے ایئر پورٹ پر کشمیری حریت پسندوں سے ملاقات کی تھی۔ بھارت نے اپنی زمین پر پاکستانی جہازوں کی پرواز روک دی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں فاصلہ راتوں رات اڑھائی گنا بڑھ گیا۔ ہمارا صدر سری لنکا کے راستے مغربی پاکستان واپس آتا تھا۔ 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں جو فوجی کارروائی شروع ہوئی وہ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی جمہوری رائے کے خلاف کارروائی تھی۔ ہم سیاسی اختلاف طے نہیں کر سکے۔ یحییٰ خان مجیب الرحمٰن سے اپنی صدارت کی ضمانت چاہتے تھے۔ یہ بندوق اور ووٹ کا مقابلہ تھا۔دنیا بھر کے سفارت خانوں میں پاکستان کا موقف کمزور پڑ گیا۔ جنرل رومیل آئزن ہاور، ڈوبلس، پٹین اور مارشل زخوف بھی سپلائی لائین کے بغیر جنگ نہیں لڑ سکتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے پاس کوئی سپلائی لائین نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجی بنگالی زبان نہیں جانتے تھے۔ زبان جانے بغیر تو ہاکی کا میچ نہیں جیتا جاسکتا، جنگ کیسے جیتی جاسکتی ہے؟ اور ایسی زمین پر جنگ جہاں کا بچہ بچہ فوج کا مخالف ہوچکا تھا۔مشرقی محاذ پر پاکستانی اور بھارتی فوج کی نفری آپ گن لیجئے، ٹینک آپ شمار کر لیجئے۔

ہم صرف یہ یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہی فضائی اڈہ تھا اور تین دسمبر کی دوپہر تک یہ اڈہ استعمال کے قابل نہیں رہا تھا۔ ہمارے پاس سیبر طیاروں کا صرف اسکوڈرن تھا جو زمین پر کھڑے کھڑے بے کار ہو گیا۔ ہماری فوج فضائیہ کے بغیر لڑ رہی تھی۔مغربی پاکستان سے بحری جہازوں کے ذریعے کمک پہنچانا ممکن نہیں تھا۔ مشرقی بنگال کی رجمنٹیں بغاوت کر چکی تھیں۔ کرنل عثمانی اور میجر ضیا الرحٰمن تو محض دو نام ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر مغربی پاکستان کے افسر بنگالی بولنے والے افسروں کے ساتھ اس اعتماد کے ساتھ مشاورت نہیں کرسکتے تھے کہ یہ ہمارے ملک کے فوجی ہیں، اعتماد کی یہ کڑی ٹوٹنا ہماری فوجی شکست کا پیش خیمہ تھا۔ میدانوں سے آنے والے مغربی پاکستانی ندی نالوں کی زمین بنگال میں کیسے لڑتے۔ کراچی جیسے شہر میں باقاعدہ فورس کے لئے گلی کوچوں میں لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ صرف یہ اعداد و شمار دیکھ لیں کہ مشرقی پاکستان ایک فوجی جوان کو کتنے رقبے کی حفاظت کرنی تھی۔سب سے اہم بات یہ کہ گولی چلانے والے کو اپنے مقصد پر یقین ہونا چاہئے۔ ہم نے مشرقی پاکستان میں اپنا سیاسی ضمیر کھو دیا تھا۔ ہمارا فوجی جوان اپنے کمانڈر کی اطاعت کرتا تھا۔ ہمارا کمانڈر تربیت یافتہ اور بہادر جوان تھا۔ بہادری کے پیچھے اپنے مقصد پر یقین بھی ہونا چاہئے۔

ڈھاکہ گیریژن کے کمانڈر میجر جنرل خادم حسین کی کتاب “اپنے دیس میں اجنبی” پڑھنی چاہیے۔ ظہیر الحسن کی کتاب ”مشرقی پاکستان کی علیحدگی“ پڑھ لیجئے۔ صدیق سالک کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ پڑھ لیجئے۔ ہم نے ڈبلیو جی چوہدری کی کتاب تجویز نہیں کی، کسی بھارتی مصنف کی کتاب تجویز نہیں کی، ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ”عظیم المیہ“ بھی تجویز نہیں کی۔ دوبارہ یاد کیجئے کہ دنیا کے کتنے سفارت خانوں میں پاکستان کے سفارت خانوں کو بنگلہ دیش قرار دے دیا گیا تھا۔ دوبارہ یاد کیجئے کہ لیفٹننٹ جنرل رحیم اور لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ میں سولہ دسمبر کی صبح کیا مکالمہ ہوا تھا۔ زخمی جرنیل کو بتایا جاتا ہے کہ بھارتی جنرل ناگرہ میر پور پل پر آن بیٹھا ہے اور اس نے پیغام لکھ بھیجا ہے کہ پیارے عبداللہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں اپنے فوجی افسر بھیج دو۔ جنرل رحیم پوچھتے ہیں لڑنے کے لئے کچھ ریزرو فورس ہے، امیر عبد اللہ نفی میں سر ہلاتے ہیں۔ جنرل رحیم کہتے ہیں کہ پھر جاؤ جو وہ کہتا ہے کرو۔ یہ سولہ دسمبر 1971 تھا۔

میجر جنرل فضل مقیم نے جنگ کے فوراً بعد “قیادت کا بحران” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ جنرل صاحب نے برسراقتدار فوجی جنتا کو غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا مثلاً جنرل یحییٰ، جنرل حمید، جنرل گل حسن، جنرل پیرزادہ، جنرل عمر اور جنرل مٹھا وغیرہ۔۔۔ لیکن یہ قیادت کا بحران نہیں تھا۔ پاکستان کو 1971 میں بھی طرز حکومت کے بحران کا سامنا تھا۔ نصف درجن فوجی کمانڈروں کو نام زد کرنا حقیقی مسئلے کی نشان دہی نہیں کرتا۔ یہ لوگ پاکستان میں دستیاب بہترین فوجی کمانڈر تھے۔ ان سے بہتر عسکری قیادت میسر نہیں تھی البتہ طرز حکومت کا متبادل موجود تھا۔ 300 نشستوں کی قومی اسمبلی میں 160 نشستیں جیتنے والی عوامی لیگ کو مطلق اکثریت حاصل تھی۔ حکومت بنانا عوامی لیگ کا حق تھا۔ مشکل یہ تھی کہ پاکستان میں برسراقتدار گروہ کو قبول نہیں تھا کہ سیاسی قوت کا سرچشمہ اسلام آباد سے ڈھاکہ منتقل ہو جائے۔

عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی نشست نہیں جیتی۔ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی حلقہ نہیں جیتا۔ ون یونٹ ختم ہو چکا تھا۔ لوگوں نے ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ بھٹو صاحب کے لئے اپنی 81 نشستوں کی بنیاد پر 160 نشستیں جیتنے والی جماعت کو یرغمالی بنانا کس اصول کی بنیاد پر درست تھا۔ بھٹو صاحب عوام کی قوت پر نہیں، مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں کے ساتھ گٹھ جوڑ پر بھروسہ کر رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے لوگوں نے مشرقی پاکستان کے ہم وطنوں کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا تو پاکستان جنگ ہار گیا۔ یہ جنگ مشرقی پاکستان کے مورچوں پر نہیں ہاری گئی بلکہ ڈھاکہ کے ایوان صدر میں ہاری گئی جہاں جنرل یحیی مجیب الرحمن سے اپنی صدارت کی ضمانت مانگتے تھے۔

26 مارچ 1971 کی صبح بھٹو صاحب نے کراچی ایر پورٹ پر فرمایا تھا کہ “خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا”۔ بھٹو صاحب نے جس پاکستان کے بچ جانے کی خوش خبری دی تھی، مشرقی پاکستان اس کا حصہ نہیں تھا۔ بھٹو صاحب نے جمہوری پاکستان کو بندوق کی نالی کے زور پر یرغمالی بنانے کی حمایت کی تھی۔ 1971 کے اخبارات کی فائلیں موجود ہیں۔ تاریخ کے اس ماخذ سے فائدہ اٹھا کر تحقیق کرنی چاہیے کہ اپریل 71 سے نومبر 71 تک صدر پاکستان جنرل یحیی خان کیا کر رہے تھے۔ مشرقی پاکتان میں توپ چل رہی تھی، ٹینک دندنا رہے تھے۔ بندوقیں گولیاں اگل رہی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ہم وطن مارے جا رہے تھے۔ کیا بھٹو صاحب نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی؟ کیا بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان کی نمائدہ قیادت کے ساتھ مفاہمت کا کوئی اشارہ دیا؟

جنرل گل حسن نے اپنی کتاب میں جنرل نیازی کو کمپنی کمانڈر کی سطح کا کمانڈر بیان کیا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جب ستمبر 1971 میں جنرل نیازی کو مشرقی محاذ کی قیادت سونپی گئی تو جنرل گل حسن راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں بیٹھے تھے۔ یہ امتحان کی گھڑی تھی۔ جنرل گل حسن کو آگے بڑھ کر اپنی خدمات کی پیش کش کرنی چاہیے تھی۔ ایک کے بعد ایک جنرل مشرقی پاکستان کی کمان سنبھالنے سے انکار کر رہا تھا۔ پھر یہ ذمہ داری جنرل نیازی کو سونپی گئی جن کا سینہ اٹھائیس تمغوں سے جگمگا رہا تھا۔ انہیں کل تین ڈویژن فوج کے ساتھ مشرقی پاکستان کا دفاع کرنا تھا۔ جنرل نیازی کو بتایا گیا تھا کہ انہیں تبت کے صدیوں پرانے تجارتی راستے سے کمک بھیجی جائے گی۔ جنرل نیازی کی عسکری غلطیاں اپنی جگہ، پوچھنا چاہیے کہ ہم نے کس بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا تھا کہ چین ہماری مدد کو آئے گا۔ امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کا شوشا کس نے چھوڑا تھا؟ ہم نے 25 برس تک اعلان کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ زمینی حقیقت یہ تھی کہ ہم نے مغربی محاذ پر دس دن میں پانچ ہزار مربع میل علاقہ کھو دیا۔

ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنرل نیازی کا ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ غلط تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے سے جنگ کے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ کل 44000 کی نفری کے ساتھ جنگ شروع کی گئی تھی اور 16 دسمبر کو ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے پاس صرف 5000 سپاہی تھے۔ ڈھاکہ کی پلٹن گراؤنڈ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھنے کے لئے دس لاکھ بنگالی امڈ آئے تھے۔ نفری کے توازن کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ جنرل نیازی اپنی کتاب “مشرقی پاکستان سے غداری” میں راول پنڈی کی عسکری قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مشکل یہی ہے کہ جنرل گل حسن سے جنرل نیازی تک کسی کو یہ تسلیم کرنا قبول نہیں تھا کہ پاکستان کی ریاست نے غلط سیاسی موقف اختیار کیا تھا۔ یہ فوجی شکست نہیں تھی، یہ آئینی بحران حل کرنے میں پاکستانی ریاست کی ناکامی تھی۔ ہم اس تلخ سچائی کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، چنانچہ ہم جنرل نیازی پر الزام دھرتے ہین کہ اس کی وجہ سے 54154 فوجی بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ بحریہ کے 1381 اور فضائیہ کے 833 اہل کاروں نے ہتھیار ڈالے۔ نیم فوجی دستوں کے 22000 جوان جنگی قیدی بنائے گئے۔ شہری انتظامیہ کے 12000 ملازمیں بھارت کی قید میں گئے۔

حیران کن منطق ہے کہ ہم جنگ کے اسباب پر غور نہیں کرتے، جنگ کے حالات پر نظر نہیں ڈالتے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ جنرل نیازی کو اس بنیاد پر کٹہرے میں کھڑا کریں کہ اس نے 16 دسمبر 1971 کی سہ پہر ہتھیار ڈال کر نوے ہزار جانیں کیوں بچا لیں۔ ہم اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے کہ ہتھیار ںہ ڈالنے کی صورت میں ہمارے پاس کیا متبادل لائحہ عمل تھا۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” کی اختتامی سطور مین جنرل نیازی سے ایک مکالمے کی روداد لکھیہ ہے۔ یہ مکالمہ جنگ ختم ہونے کے فورا ً بعد کیا گیا۔

صدیق سالک: جو تھوڑے بہت وسائل آپ کئے پاس ڈھاکہ مین موجود تھے، اگر آپ ان کو بھی صحیح طور پر استعمال کرتے ، تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی۔

جنرل نیازی: مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا؟ ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی، گلیوں میں لاشوں کے انبار لگ جاتے، نالیاں اٹ جاتیں، شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی۔ لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں۔۔۔ اس کے باوجود انجام وہی ہوتا! میں نوے ہزار بیواؤں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کی بجائے نوے ہزار قیدی واپس لے جانا بہتر سمجھتا ہوں

صدیق سالک: اگرچہ انجام وہی ہوتا، مگر تاریخ مختلف ہوتی۔ اس سے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنہرا باب لکھا جاتا۔

بھائی سلیم ملک کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اس مفروضہ سنہری باب کے صفحات پر گرنے والے ممکنہ لہو کے دھبوں کی نشان دہی کی ہے۔ سلیم ملک نے کیا غلط کہا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی زندگی کی دعائیں مانگتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے بہادر کمانڈروں پر لعن طعن لکھنے والے سب مصنف راولپنڈی کے گیریژن میں بیٹھے تھے۔ امیر عبد اللہ مشرقی پاکستان کے گورنر ڈاکٹر مالک کے پاس بیٹھے تھے ۔ ڈاکٹر مالک نے امیر عبد اللہ کا حوصلہ بندھایا تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ڈاکٹر مالک غدار نہیں ہوتا۔ فوج کے جرنیل بزدل نہیں ہوتے۔ کاغذ پر قلم رکھ کر فتح کی بشارتیں لکھنا بہت آسان ہے۔ جنگ ایک سائنس ہے۔ قومی ریاست ایک معاہدہ ہے۔ اور آج کی دنیا میں جنگ مذہب کے اختلاف پر نہیں ہوتی۔ فوجی جنرل منصوبہ تیار کرتا ہے۔ سیاستدان سوال کرتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ قوم جنگ کے تابع نہیں ہوتی۔ جنگیں قوم کے مفاد میں لڑی جاتی ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے