ماں، بہن، بیٹی

آج سے چند برس پہلے جب مریم صفدر کا شناختی کارڈ ’’ریورس‘‘ ہو کر پھر مریم نواز ہوا تو بہت سے لوگوں نے اِس بات کو سیاست میں آمد کی تیاری کے حوالہ سے دیکھا۔ دو چار موقعوں پر لوگوں میں اِس موضوع پر بحث مباحثہ ہوا تو مجھے اِس سے رتی برابر دلچسپی نہ ہونے کے باوجود اک عجیب سے خیال نے تھوڑا بےچین کردیا کہ شریف خاندان بالخصوص میاں نواز شریف نے بیگم نصرت بھٹو مرحومہ اور محترمہ بےنظیر بھٹو پر جس جس طرح کیچڑ اچھالا، کردار کشی کی مہم چلائی، بدزبانی کی انتہا کی، کہیں قدرت سبق سکھانے کے لئے خود اُن کی بیٹی کو سیاست کی غلاظت میں دھکیل کر ’’مکافاتِ عمل‘‘ کا جلوہ دکھانے کی تیاری تو نہیں کررہی۔ اُنہی دنوں میں نے اِس امکان پر ایک کالم بھی لکھا جس کا عنوان بھی شاید ’’مکافاتِ عمل‘‘ ہی تھا۔

اِس سے بھی پہلے کی بات ہے جب نواز شریف اینڈ کمپنی بہت ہی سطحی سستی مہم چلا رہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو ’’میڈ اِن امریکہ‘‘ اور بےنظیر بھٹو ’’میڈ اِن انگلینڈ‘‘ ہے جبکہ ہم شریف ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ ہیں یعنی بھٹو صاحب اور بےنظیر بھٹو کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کو بھی طعنہ بنانے کی کمپین چلائی گئی۔ کمال اتفاق ہے کہ بعد ازاں جب ایکسپوژر نصیب ہواتو خود پکے پکے ’’میڈ اِن انگلینڈ‘‘ ہو گئے کہ ظاہر ہے اِس سے پہلے تو بچوں کو باہر پڑھانے کا خواب بھی اِس محنت کش، دست کار گھرانے کے لئے ممکن نہ تھا۔ بہرحال یہ ہوسِ اقتدار اور بھٹوز کی نفرت میں تمام قسم کی حدود عبور کرتے چلے گئے۔

کل رات یارِ غار ابرار بھٹی سے فون پر بات ہوئی تو اُس نے مجھے برسوں پرانا میرا وہ کالم یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالہ سے کیسی غلیظ بدبودار مہم چل رہی ہے۔ ساتھ ہی ابرار نے کسی ٹاک شو میں فیصل واوڈا کے مریم نواز بارے کچھ نامناسب سے ریمارکس کا حوالہ بھی دیا اور کہا … ’’لگتا ہے تمہاری پیش گوئی سو فیصد درست ہونے جا رہی ہے کہ اِس بار ہدف بےنظیر بھٹو نہیں، مریم نواز ہوگی‘‘۔

میں نے کہا ﷲ نہ کرے ایسا ہو کیونکہ میرے لئے یہ سب کچھ باعثِ ندامت و خجالت ہے۔ ایسا ہوا یا شروع ہو چکا تو یہ شرمناک سے بھی آگے کی کوئی بات ہے کیونکہ بےنظیر بھٹو بھی ’’اپنی‘‘ ہی تھی اور مریم نواز بھی کوئی ’’غیر‘‘ نہیں۔ میں نے تب جو کچھ لکھا وہ خدشہ تھا کہ ایسے رویوں سے بچنا چاہئے جو بوم رینگ کی طرح واپس پلٹ کر خود آپ کی گردن ہی کاٹ دیں۔ اک عام سے پاکستانی اور بہت ہی عام گنہگار سے مسلمان کے طور پر یہ سب کچھ جچتا نہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خواتین کی کردار کشی کے کلچر کی موجد پی ٹی آئی ہر گز نہیں، اِس بدبودار کلچر کی بنیاد نواز شریف اور اُن کے مخصوص حواریوں نے رکھی تھی لیکن یہ بھی اِس بات کا جواز نہیں کہ آج مریم نواز کو بھی اسی قسم کی گھٹیا، نیچ، بازاری مہم کا ہدف بنایا جائے۔

یہ درست کہ مکافاتِ عمل کا پہیہ بہت سفاک اور اندھا ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں تو یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ گندگی، غلاظت کا یہ ’’میچ‘‘ کب تک جاری رہے گا؟ اور اِس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا کچھ لوگ ماں، بہن، بیٹی جیسے پاکیزہ اور خوب صورت ترین الفاظ کو بھی گالیوں میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں؟ ایسا کچھ کرنے سے پہلے صرف چند لمحوں کے لئے اپنی اپنی مائوں کے چہروں کو دھیان میں ضرور لے آئیں۔ انسان بغیر بہن اور بیٹی کے تو ہو سکتا ہے لیکن ماں کے مقدس وجود کے بغیر تو انسانی وجود ممکن ہی نہیں اور ماں اگر پیدا ہوتے ہی بچھڑ جائے تو بھی زندگی بھر انسان کی رگوں میں ہمکتی رہتی ہے۔

عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ کسی کی ماں، بہن، بیٹی پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے صرف ایک لمحہ کے لئے خود اپنی ماں کا تصور کرلیں… پھر بھی اگر جی چاہے تو جو مرضی کر گزریں لیکن صرف ایک بار صرف اس ہستی کا سوچ لیں جس کے پیروں تلے جنت ہے۔

ہمارے ہاں تو نہ ماں کو معافی نہ دھرتی ماں کو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے