منجھلے بھائی جان کی صحافت

ناصر نے لکھا تھا ’’خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا/ پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے‘‘۔ ارے، پلٹ کے کدھر سے آتے، کہیں گئے ہی نہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ اپریل 1949میں سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ایک خبر شائع کی۔ حکومت نے پُرزور تردید کی اور پھر صحافت کے جملہ منجھلے بھائی جان رواں ہو گئے۔ غداری کے الزامات میں تتر بتر ایسی مہم چلی کہ 6مئی 1949کو مغربی پاکستان کے سولہ اخبارات میں ایک مشترکہ اداریہ شائع ہوا جس میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ ہماری تاریخ میں شاذ ہی کسی حکومت نے اہلِ صحافت کی ایسی حکم برداری کی ہو۔ ترنت مذکورہ اخبار پر پابندی لگا دی۔ سات دہائی بعد گزشتہ سوموار کو اخبارات کے صفحہ اول پر ایسا ہی دل گداز حسن اتفاق ایک بار پھر نظر سے گزرا۔

کچھ ستم ظریفوں نے تو کہیں کونے کھدرے میں محترم وزیراعظم کی وہ تصویر بھی چپکا دی جس میں وہ سگان خانہ زاد کو راتب ڈال رہے تھے۔ اساتذہ نے بتایا ہے کہ صحافت دست نادیدہ کا فسوں خیز کارخانہ ہے۔ یہاں خدمت گاروں کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’’منجھلے بھائی جان‘‘ اور ’’ننگ اسلاف‘‘۔ منجھلے بھائی جان کا استعارہ مرحوم شاد عارفی سے مستعار ہے۔ اور ننگ اسلاف یہ درویش خود کو کہتا ہے۔ اس لئے کہ دوسروں سے کہو تو منہ آتے ہیں۔ ننگ اسلاف کے روز و شب کیا پوچھتے ہیں، ’’یوں ہے کہ ہر اک ہمدم دیرینہ خفا ہے‘‘۔ تقاضا ہے کہ منجھلے بھائی جان سے قلم کاری کا درس کیوں نہیں لیتے۔ بہتر عزیزان من، کوشش کرتا ہوں کہ ایران توران کی کہوں۔ زنہار احوال اپنے دیس کے دامان تار تار کا کہیں آنے نہ پائے۔ دو قصے لکھتا ہوں۔ ان میں کہیں ربط باہم کا اندیشہ گزرے تو آپ کا ذمہ۔ درویش نے تو ’’ترکِ آرزو‘‘ کی راہ پکڑی ہے۔

بھٹو صاحب نے مقتل سے ملحقہ زندان میں ایک کتاب لکھی If I Am Assassinated۔ اِس تصنیف میں ایک جگہ بتایا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان جرمن وزیر خارجہ فان برینٹانو سے ملے تو انہیں مطلع کیا کہ پاکستانی اور جرمن تاریخی روایت میں قریبی اشتراک پایا جاتا ہے۔ فان برینٹانو اطالوی نژاد جرمن تھے۔ انہوں نے ایسے استعجاب کا اظہار کیا جو اشراف میں اختلاف کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ قبل ازیں فیلڈ مارشل یہی نکتہ چانسلر کانریڈ ایڈنائر اور وزیر خارجہ شروڈر کے بھی گوش گزار کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب کو تجسس ہوا کہ صدر عالی مقام کس طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ تاریخ دان تھے، بالآخر معاملے کی کنہ کو پہنچ گئے۔

نپولین بوناپارٹ سے جان چھڑانے کے بعد یورپ کی اشرافیہ نے 1815میں کانگریس آف ویانا منعقد کی جہاں یورپی طاقتوں نے میٹرنخ کی رہنمائی میں معاہدہ ویانا مرتب کیا جس کا مقصد مقتدر طبقات کی حکمرانی کو دوام دینا تھا۔ تیس برس بھی نہیں گزرے کہ یورپ میں ایک بار پھر انقلاب اور بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ کہیں اٹلی کا مازینی تو کہیںجرمنی کا کارل مارکس۔ کہیں نپولین سوم تو کہیں پیرس کمیون۔ اس افراتفری کی آڑ میں پرشین فوج اپنا حجم بڑھاتی چلی گئی۔ بالآخر واضح ہو گیا کہ پرشیا کا حجم اور وسائل اتنی بڑی مستقل فوج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مقتدر ٹولے کے سامنے تین راستے تھے، (الف) پرشیا جارحیت کر کے ملحقہ علاقوں اور وسائل پر قابض ہو جائے۔ (ب) پرشین فوج کا حجم کم کیا جائے، (ج) پرشیا کی معیشت عسکری اخراجات کی تاب نہ لاتے ہوئے منہدم ہو جائے۔

اس صورت حال میں پرشین فوج نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔ 1864میں ڈنمارک سے جنگ چھیڑی۔ 1866میں آسٹریا پر حملہ کیا۔ 1870میں فرانس سے جنگ شروع کی۔ 18 جنوری 1871کو بسمارک نے متحدہ جرمنی کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ‘ein Reich, ein Kaise, The work is done’ (ایک سلطنت، ایک بادشاہ۔ ہدف مکمل) لیکن تاریخ نے بتایا کہ ہدف اس طرح حاصل نہیں ہوتے۔ دو عالمی جنگوں میں شکست اور فسطائیت کی آزمائش کے بعد بالآخر جرمنی کو اگست 1949میں چانسلر کانریڈ ایڈنائر کی زیر قیادت جمہوریت کا راستہ اختیار کرنا پڑا جس پر چلتے ہوئے جرمنی ساڑھے تین کھرب یورو کے جی ڈی پی کے ساتھ آج یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہ وہی چانسلر کانریڈ ایڈنائر تھے جنہیں ایوب خان جرمن تاریخ کا سبق پڑھانا چاہتے تھے۔

تاریخ میں اقتدار اور وسائل کی تقسیم کا ایک اور نمونہ بھی ملتا ہے۔ 1688میں بادشاہت کی بحالی کے بعد برطانیہ میں مقتدرہ اور جمہور میں اختیارات کا توازن بتدریج تبدیل ہوا۔ 1689میں بل آف رائٹس منظور ہوا۔ 1701میں محدود بادشاہت کا اصول تسلیم کیا گیا۔ ملکہ این آخری برطانوی حکمران تھیں جنہوں نے 1708میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی قانون کو ویٹو کیا۔ شاہ جارج سوم آخری برطانوی بادشاہ تھا جس نے 1801میں پالیسی کے اختلاف کو یہاں تک بڑھایا کہ وزیر اعظم ولیم پٹ نے استعفی دے دیا۔ ولیم چہارم وہ آخری برطانوی بادشاہ تھا جس نے 1831میں پارلیمنٹ کو تحلیل اور وزیراعظم کو برطرف کیا۔

1837میں تخت نشین ہونے والی ملکہ وکٹوریہ نے 1839میں پارلیمنٹ کی مخالفت کے باوجود اپنا پسندیدہ وزیراعظم مقرر کیا۔ یہی ملکہ وکٹوریہ گلیڈ سٹون کو سخت ناپسند کرتی تھیں لیکن پہلے 1868اور پھر 1880میں گلیڈ سٹون کو وزیراعظم منتخب ہونے سے نہیں روک سکیں۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ 1886میں گلیڈ سٹون کو اپنی مرضی کا وزیر جنگ مقرر کرنے سے روک دیا۔ اور اب تو یہ بھی ممکن نہیں۔ آج برطانیہ کے باشندے اپنے ووٹ سے اسکاٹ لینڈ کے ساتھ رہنے اور یورپین یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ تو اس میں ہمارے لئے کیا سبق ملتا ہے؟ ارے چھوڑیے صاحب، ہمیں جرمنی اور برطانیہ سے کیا لینا دینا، وہ شاد عارفی کا شعر رہا جاتا ہے۔ سن لیجیے:

دو بچوں کا باپ، تو کیا ہے، دل کا ہو انسان جوان

تم بھی ایسے ہو جائو نا جیسے منجھلے بھائی جان

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے