“ ججا جی (بہنوئی) ، آزاد امیدوار”

کل میں اپنے ایک دوست قاسم کے ساتھ باہر گھومنے کے لئے نکلا، کچھ رقم بھی بنک سے نکلوائی، اور واپسی پر میں نے کہا کہ چلو کافی بھی پی لیتے ہیں, ویسے بھی یہ “ٹی ٹائم” تھا جب میں باہر گیا۔

قاسم بھائی نے واپس میلان سینٹرل جانا تھا مگر انھوں نے کہا کہ چلو بہت دنوں بعد ملے ہیں تو کچھ وقت ساتھ بیتانے کے بعد میں لوٹ جاؤں گا۔

قاسم بھائی گجرات کے کسی نواحی گاؤں میں رہتے ہیں اور یہاں اٹلی میں امیگریشن حاصل کی ہوئی ہے۔ میں نے ان سے ان کی سیاسی وابستگی بارے پوچھا تو ہنس کر بولے، “نہ ہی پوچھو تو بہتر ہے”، مجھے تجسس ہوا تو میں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ آپ بتاؤ کہ کیا ماجرا ہے جو ہنسی آ گئی؟”

انھوں نے مجھے گجرات کے ایک گجر گھرانے کی کہانی سنائی کہ “جمال دین نے 1947 کے خونی فسادات میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر گجرات میں آ کر آباد ہو گیا۔ محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ جمال دین ایک نہایت ایماندار اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔ اس کو بڑھاپے میں دیکھ کر لگتا تھا کہ جوانی بھی جمال دین پر کسی رنگ میں گزری ہوگی!!!

ساڑھے چھ فٹ کے قریب اس کی جسامت تھی۔ اس کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو از سر نو سب کچھ نیا بنانا پڑا۔ جمال دین نے شادی کی تو خدا نے ایک نہایت دیندار گھرانے سے اس کو شریک حیات دی۔ زندگی مسکرانے لگی اور خداوندکریم نے اولاد سے بھی نوازا، اور ان کی پرورش کے لئے جمال دین نے دن رات ایک کر دیا۔

قاسم نے کہا کہ بتانے والے اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جمال دین اتنا محنتی شخص تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سے کچھ نہ مانگا۔ جو کماتا وہ اپنے بچوں کی پرورش پر خرچ کرتا کہ آنے والے کل یہ میرا نام روشن کریں گے، اور دنیا والوں کو ان میں میری جھلک نظر آئے گی۔

سیانے لوگ کہتے ہیں کہ والد نے اگر رزق حلال سے اپنی اولاد پر خرچ کیا ہو تو اس کی اولاد کبھی ایسا کام نہیں کر سکتی جس سے اس کا نام بدنام ہو یا معاشرے میں کوئی ان کوئی اونچا مقام نہ مل سکے!!!

جمال دین اپنی زندگی میں بیٹوں کی ترقی نہ دیکھ سکا، کیونکہ جب وہ فوت ہوا تو اس کا کل سرمایہ جو اس کی اولاد تھی وہ کسی بہت اچھے مقام پر نہ کھڑی تھی، مگر پھر بھی ایک رعب تھا اور خداوندکریم نے ان پر اپنی عزت کی چادر ڈال رکھی تھی۔

جمال دین کے بیٹے بڑے ہو چکے تھے اور ان کی اولادوں کے ہاں بھی اولادیں تھیں۔ اب جمال دین کے بیٹے والدین سے الگ ہو چکے تھے اور دور دراز اپنے اپنے روزگار کے لئے نکل چکے تھے!!!

اگر جمال دین کے کسی بیٹے کو کاروبار میں نقصان ہوتا تو اس کا دوسرا بھائی اس کی بھرپور مدد کر کہ اسے پاؤں پر کھڑا کرتا۔
ایسے حالات میں جب جمال دین کے ایک بیٹے نے شادی کی تو اس کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ اس نے مختلف کام کئے مگر نقصان اٹھاتا رہا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی کوشش جاری رکھی۔ اس دوران حالات اچھے ہوتے رہے اور اس کی ماں چل بسی۔

اس کی ماں جب دنیا سے رخصت ہوئی تو خدا نے اس کی اولاد پر اپنا اتنا کرم کر رکھا تھا کہ وہ موت کے فرشتے کو کچھ دے دلوا کر تاریخ بھی آگے کروا سکتے تھے اگر یہ ان کے بس میں ہوتا !!!

اس کے بعد اس کے بیٹوں نے ترقی کی نئی منازل طے کرنا شروع کر دیں۔

جمال دین کے ایک بیٹے کو مسلم لیگ ن کے کسی وزیر نے کسی سرکاری ادارے میں ملازمت دلوا دی اور اپنا ووٹ بنک بڑھا دیا ، تو دوسرے نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر سے محلے کی سطح پر سماجی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور اس کے سماجی کاموں سے اس کی عزت میں قدرے اضافہ دیکھنے کو ملا۔

جمال دین کے گھر میں اس وقت تک سارے متحد تھے، سب بھائی آپس میں صلاح مشورے کے ساتھ کام کرتے تھے۔ ان کی آپس کی رشتہ داریاں ان خاندانوں کے ساتھ بہت زیادہ ہیں جو مذہبی جماعت ، جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ بھی ہیں جنھوں نے مسلم لیگ کے دور حکومت میں بہت فوائد حاصل کئے اور ابھی تک ان کا پھل کھا رہے ہیں۔

روپے پیسے کے آتے ہی مرد دوسری شادی کے چکروں میں پڑ جاتا ہے، اور اگر کوئی دوسری شادی نہ رچائے تو وہ سیاست میں کود پڑتا ہے!!!!

ایسے ہی گجرات کے آبائی علاقے سے جمال دین کے ایک بیٹے نے کیا ہے، اس نے الیکشن میں بطور “آزاد امیدوار “حصہ لینے کا بھرپور فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ اسے کوئی دوسری بڑی سیاسی جماعت بطور پارٹی امیدوار ٹکٹ دینے سے رہی۔

جمال دین کے بیٹے کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل تو ضرور ہے مگر اس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے!!! ایسے میں جب آپ کے حلقہ انتخابات میں دوسری سیاسی جماعتیں بہت مضبوط امیدوار رکھتی ہوں وہاں محض روپے پیسے کی بنیاد پر آپ کا “برادری کارڈ “ کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینا محض ٹی وی کمرشل “سوپ اوپرا” سے زیادہ نہ ہوگا!!!

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کون کس کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداریاں نبھاتا ہے ؟؟؟ وہ رشتہ دار جو ایک زمانے سے جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں اور جن کا جینا مرنا جماعت اسلامی کا منشور ہے، وہ کسے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں؟؟

یا دوسری طرف وہ رشتہ دار ہیں جو مسلم لیگ نواز کے بینر تلے ہمیشہ جمع رہے اور مفادات حاصل کئے اور مفادات کی یہ خصوصیت ان کے خون میں رچی بسی ہیں!!!!

اور تیسری طرف ہے محض وہ برادری جو بطور “برادری کارڈ” استعمال ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، کیونکہ ان کی بھی جڑوں کو نواز لیگ نے مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے !!!

اب بہنوئی جماعت اسلامی سے ہو، نواز لیگ یا پھر “آزاد امیدوار”، ووٹ تو کسی ایک ہی کو دینا ہے!!! دیکھنا یہ ہو گا کہ اب گجرات کی سرزمین پر جمال دین کے بیٹے سیاسی میدان میں کیا سکور کرتے ہیں؟؟؟

“تاج دین” میرے بہنوئی (ججا جی) ہیں، اور “آزاد امیدوار “کے طور گجرات سے سامنے آ رہے ہیں، اب سچ پوچھو تو ہم نے مسلم لیگ سے بھی مفاد حاصل کئے ہیں، ہمارے چاچو مسلم لیگ کے ایک وزیر کے پی آر او بھی رہ چکے ہیں، اور ہماری برادری کے متعدد لوگوں کو سرکاری ملازمت بطور “سکول ٹیچر “بھی انہی وزیر صاحب کی وساطت سے ملی ہوئی ہیں, جبکہ ہماری جماعت اسلامی کے ساتھ بھی بہت گہری وابستگی ہے !!!!

اب آپ ہی بتاؤ کہ ہم کس کو ووٹ دیں ؟

جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن، یا “آزاد امیدوار” کو !!!”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے