سامع: اے ناظر! بتا کائنات میں اس قدر تفریق کیو ں ہے، پھرچاہے وہ انسان ہو یاحیوان، نباتات ہوں یا جمادات،ہر سمت، ایک معین کردار ہے اور بظاہر کوئی بدلاؤ بھی نہیں۔مزید برآں یہ کردار ہماری مرضی کے برخلاف ہمیں عطا کیے گئے اور ساتھ ہی حساب کتاب کا کھیل بھی ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا۔پھر یہ دعویٰ بھی کہ ہمیں عین فطرت پر پیدا کیا گیا۔اگر اس قدر یقینِ کامل ہے توپھر بے سکونی کیوں؟پھر لامتناہی سفر کیوں؟پھر یہ روزوشب کی گنتی کیوں؟
ناظر: اے سامع! تیرے ہر سوال کی بنیاد تیری منشا ہے۔ اس کااحترام ہے،یہ کردار تو محض فریب ہیں، حقیقت میں،تیری منشا، تیری مرضی کی بے توقیری تجھے پناہ گاہیں ڈھونڈنے پرمجبور کرتی ہے۔تجھے اپنے پیداہونے پر کوئی اعتراض نہیں،ہاں اپنے بے کس ومجبور ہونے پر شکوہ ہے۔تو تقسیم پر نہیں اس کے نتائج پر نوحہ کناں ہے۔
سامع: اے ناظر!حالات نتائج کی پیداوار ہوتے ہیں اور نتائج غیر منصفانہ تقسیم کانتیجہ!کب اس میں کوئی شائبہ ہے؟
ناظر: اے سامع! جذبات ہمیشہ بصارت کے محتاج ہوتے ہیں۔ہم جو دیکھتے ہیں،پرکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں وہی محرکات ہماری شخصیت میں ڈھل جاتے ہیں۔جو ہمارے مشاہدے میں نہیں، اس کی خواہش کیوں کر ممکن ہے؟اگر کوئی متمول خاندان میں پیدا نہیں ہواتو اس کی زندگی میں امارت کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔البتہ یہ امر دلچسپ ہو گا کہ اس کاتعلق امارت سے کن بنیادوں پراستوار ہوگا۔یہ امر معنی خیز ہے کہ انسان کبھی بھی آگے بڑھنے کی جستجونہیں کرتا،نہ ہی اپنے دگرگوں حالات سے آزادی چاہتا ہے پھر چاہے وہ امارت ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ امارت، طاقت یاکوئی امر اُس کی منشاکو رونددے اور اس کی کم مائیگی کے احساس کو تقویت دے۔
سامع: گویا تفریق کی بنیاد عدم مساوات نہیں ہے، اس سے جنم لینے والے رویے ہیں۔بالفرض ایسا ہی ہے تو کیسے اس ناہم واری کا خاتمہ ممکن ہے؟
ناظر: انسان کی جائے پناہ یکسانیت نہیں ہے۔وہ کھوجانے کی حد تک مختلف پناہ گاہوں کاخواہاں ہے۔جہاں یکسانیت نہیں وہاں برابری کیوں کر ممکن ہوگی؟ اگرچہ ہم ہر نظامِ حکومت میں حتیٰ الامکان مساوات کے حامی کیوں نہ ہوں۔
سامع: جب یکسانیت کا حصول ممکن نہیں اور عدم مساوات قدرت کااصول ہے تو پھر ضِد، تفریق اور مقابلہ تو فطری ہے پھر چاہے کوئی بھی سرشت ہو
ناظر: یقیناََ یہ ہمہ جہت جنگ ہے جو بے رحم بھی ہے اورتمام حدود وقیود سے بالاتر بھی۔یہ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔کوئی پیادہ ہے کوئی وزیراور کوئی بے تاج بادشاہ۔ہم میں سے کوئی بھی خود سے ہارنانہیں چاہتا جب کہ ہار تو مقدر ہے۔اسی لیے دوسروں پرہار مسلط کرنا چاہتے ہیں۔اپنااپنا حلقہِ اثر قائم کرتے ہیں، صرف اس کے قیام کی ہی نہیں،اس کی دائمیت کو بھی یقینی بناناچاہتے ہیں۔
سامع: جب ہار مقدر ہے اور ہرکوئی اس امر سے واقف ہے توپھر ہار اور جیت کاکھیل، صحیح اور غلط کی تفریق کیوں؟ زندگی اور موت کا تصور کیوں؟
ناظر: یہ تفریق نہیں ہے،یہ تو سفر ہے،وسیلہ ہے خودشناسی کا،غلط، صحیح، جائز،ناجائز محض استعارے ہیں جو ہماری زندگی کے ضامن ہیں۔ہماری آزردہ روح کونئی زندگی بخشتے ہیں،جیسے سب چشمے سمندر میں سمو جاتے ہیں ایسے ہی بظاہر یکسر متضادارواح ایک ہی منزل کی طرف گامزن ہیں۔بعض ہمارے راستے کاintractضرور کرجاتے ہیں جو تفریق کو جنم دیتے ہیں۔ جس کانتیجہ طاقت کاعدم توازن ہوتا ہے،رفتہ رفتہ کوئی اور قت اسکے مقابل کھڑی ہوجاتی ہے اُسی راستے پر۔!یوں ایک کھیل جاری رہتا ہے گو منزل کی جستجو تو سب کو ہے مگر منزل پرمسلسل مرتکز رہنا ہرکسی کامقدر نہیں