جمعیت علمائے اسلام میں اختلافات اور کچھ اہم واقعات

[pullquote]1953 کی تحریک ، مفتی محمود اور جمیعت علمائے اسلام [/pullquote]

1953 کی ختم نبوت تحریک کے خلاف ریاستی جبر وتشدد کے بعد ہر طرف ایک سناٹا چھایا ہوا تھا ہر سو ہو کا ایک عالم تھا، سینکڑوں لوگ روزانہ قتل ہوتے تھے، اس یاسیت کے دور میں شیخ الاسلام حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے پیروکاروں میں سے مفتی محمود رحمہ اللہ نے علمائے حق کے نمائندہ جماعت جمعیت علمائے اسلام کی دوبارہ احیا اور شیرازہ بندی کے لیےآواز بلند کی، ان کی اس پرخلوص صدا پر امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ شاگرد مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ، ولی کامل مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ، مولانا عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ، مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ، مولانا شمس الحق رحمہ اللہ اس قافلہ حق کی رہبری کے لیے آمادہ ہوئے۔ چنانچہ مولانا لاہوری رحمہ اللہ امیر مقرر ہوئے، مفتی محمود رحمہ اللہ نائب امیر اور مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس قافلہ نے ملکی سیاسی تاریخ میں عددی قلت کے باوجود کہاں کہاں پڑاؤ ڈالا؟ کن کن مراحل سے گزرنا ہوا؟ شرکائے سفر نے قید وبند کے کن کن مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیے؟ ملک میں اسلامی اسلامی اقدار ومشرقی روایات کے لیے کس طرح عوامی وپارلیمانی جدوجہد کی ہے؟ اور ملک میں اسلامیانے کے مساعی میں اس کا کس قدر حصہ ہے؟ یہ ایک طویل تاریخ ہے۔

[pullquote]بھٹو کا اسلامی سوشل ازم ،جمیعت علمائے اسلام اور علماء [/pullquote]

یہ قافلہ چلتا رہا یہاں تک 1970 کے انتخابات سے قبل بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تو ملکی سیاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، جمعیت علماء نے دائیں بازو کی جماعت کے طور پر کام کرنے سے انکار کیا، اسلامی سوشلزم کے حامیوں پر کفر کے فتوی لگے، ملک کے تقریبا ایک سو تیرہ مفتیان نے یہ فتوی مرتب کیا، اس فضا میں مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحق رحمہم اللہ نے جمعیت علماء کے بالمقابل مرکزی جمعیت علماء کے نام سے نظم بنایا، اور دائیں بازو کی سیاست میں حصہ ڈالا۔

[pullquote]سقوط ڈھاکہ اور جمیعت علمائے اسلام [/pullquote]

سقوط ڈھاکہ کے بعد ملکی سیاسی مستقبل کے حوالے سے ایک بار پھر جمعیت علماء میں اختلاف برپا ہوا، مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ ذوالفقار علی بھٹو کے حلیف بننے پر مصر تھے اور مفتی محمود رحمہ اللہ بھٹو کے خلاف مشترکہ اپوزیشن کے حلیف بننے پر زور دے رہے تھے اس رائے میں ان کے ساتھ مولانا عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ، مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ شریک تھے۔ یہاں تک بابا ہزاروی رحمہ اللہ نے الگ جمعیت قائم کی جو ہزاروی گروپ کہلایا، اس میں ان کے ساتھ مولانا عبد الحکیم رحمہ اللہ مولانا ضیاء القاسمی رحمہ اللہ، اور پیر عزیز الرحمن رحمہ اللہ شریک سفر رہے۔ (بعد میں پیر عزیز الرحمن رحمہ اللہ جمعیت علماء میں شامل ہوگئے تھے)

[pullquote]ایم آر ڈی ،جمیعت علمائے اسلام کی تقسیم ، مولانا سمیع الحق اور مولانا "اسرائیل” کا قصہ [/pullquote]

حضرت مفتی محمود رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جمعیت علماء ایم آر ڈی تحریک کے ساتھ چلے؟ یا ایم آر ڈی سے الگ رہء؟ اس پر نکتے پر اختلاف پایا جارہا تھا مولانا درخوستی رحمہ اللہ ایم آر ڈی سے الگ رہنا چاہتے تھے، اس ہدف کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ کو جنرل سیکرٹری بنوانا چاہتے تھے، جبکہ مولانا محمد شاہ امروٹی، مولانا حامد میاں، اور مولانا خان محمد رحمہم اللہ ایم آر ڈی کے ساتھ چلنا چاہتے تھے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کو جنرل سیکرٹری بنانا چاہتے تھے۔ اس اختلاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعیت علما پھر تقسیم ہوگئی، اور دو گروپ بنے درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ۔ جب ایم آر ڈی ختم ہوئی تو پھر دونوں گروپس آپس میں مل گئے۔ لیکن مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ جو درخواستی گروپ کے ناظم اعلی تھے وہ اس مصالحت پر راضی نہ ہوئے چنانچہ انہوں نے ایک الگ گروپ بنایاجو جمعیت علماء س گروپ کہلایا۔ مذکورہ مصالحت کے نتیجے میں مولانا اجمل قادری صاحب پنجاب کے امیر مقرر ہوئے، لیکن آئندہ رکن سازی اور پارٹی انتخاب میں حضرت ہار گئے تو سائیڈ پر ہوئے پھر س گروپ میں شامل ہوئے، غالبا 1999 کے اوائل میں جب مولانا فضل الرحمن صاحب امریکہ مخالف تحریک چلا رہے تھے تو اس وقت انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسرائیل کا دورہ بھی کیا، جس پر صحافتی دنیا میں انہیں مولوی اسرائیل کے نام سے یاد کیا گیا، بعد میں انہوں نے قادری گروپ بنایا، اسی طرح صاحبزادہ پیر عبد الرحیم صاحب جو س گروپ میں تھے انہوں نے س کو چھوڑ کر سینئر گروپ بنایا، چند سال قبل بعض تنظیمی امور پر اختلاف کی وجہ سے ناراض احباب نے نظریاتی گروپ بھی تشکیل دیا تھا۔

اس تمام روئیداد لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت مفتی محمود رحمہ اللہ اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے اس عہد میں جمعیت علماء مسلسل ترقی کے زینوں پر چڑھتی رہی ہے، آج ملکی سیاست جمعیت علماء ایک منظم اور مضبوط توانا سیاسی آواز ہے، حضرت مفتی صاحب کی عبقریت اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے سیاسی قد کاٹھ کی وجہ سے جمعیت علماء ملکی سطح پر میجر پارٹیوں کی صف میں شامل ہوتی جارہی ہے، اسٹبلشمنٹ کے ہمہ نوع حربوں کے باوجود جمعیت علماء کی اسٹریٹ پاور میں اضافہ ہورہا ہے یہاں تک اس لحاظ سے جمعیت علماء ملک میں ٹاپ پوزیشن پر ہے اور اسی وجہ سے تمام اپوزیشن جماعتوں نے مولانا صاحب کو اپنا امام بنایا ہے۔

جبکہ حضرت مفتی صاحب اور حضرت مولانا صاحب سے اختلاف کی بنیاد پر جن جن اکابرین نے الگ گروپ تشکیل دیے تھے ان میں کوئی ایک گروپ بھی ملکی سیاست میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکا۔

[pullquote]بات خراب کہاں سے ہوئی ؟[/pullquote]

گزشتہ اور اس سے پیوستہ انٹرا پارٹی انتخابات اور موجودہ اسٹبلشمنٹ کی آوردہ حکومت کے ایشو پر جمعیت علماء میں کچھ احباب کے ہاں بے چینی پائی جارہی تھی، اس کے لیے انہوں نے اصلاحات کے نام سے مہم چلائی، انسانی جماعتوں میں دستوری عمل میں کوتاہی سے انکار نہیں، (جس طرح خود ان بزرگوں کے دور میں بھی دستوری کوتاہیوں سے انکار مشکل ہے) لیکن ان بزرگوں نے جماعتی فورمز تک رسائی کے باوجود متعلقہ فورمز سے ہٹ کر سوشل میڈیا اور پھر مین اسٹریم میڈیا پر تنقید شروع فرمائی، بات اصلاحات سے آگے جاپہنچی یہاں تک سول مارشل لا کے خلاف عین جدوجہد کے وقت لب ولہجہ اصلاح کے بجائے شدید ترین منافرت میں تبدیل ہوا، اور وہ بھی ملکی وبین الاقوامی میڈیا کے سامنے، جس سے پارٹی میں انتشار کی سی کیفیت شروع ہوگئی۔ جس کا منطقی نتیجہ پارٹی رکنیت کی منسوخی پر منتج ہوا۔

قریبی وقتوں میں جو ساتھی جمعیت علماء میں شامل ہوئے ہیں ان کے علم میں شاید نہ ہو لیکن جو جمعیت علماء کے فکر ونظر کے پرانے ساتھی ہیں ان پر یہ امر مخفی نہیں ہوگا کہ مولانا شیرانی صاحب نے بلوچستان میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مقابلے میں جمعیت علماء کے نظم کو پروان چڑھایا ہے اس باب میں ان کے گرانقدر خدمات ہیں اسی طرح ماضی میں سخت ترین دور میں جس وقت مولانا فضل الرحمن صاحب کو شدید مخالفتوں کا سامنا تھا انہوں نے مولانا صاحب کا ساتھ دیا تھا، اور طویل عرصہ ان کے ساتھ بطور رفیق شریک سفر رہے۔ اسی طرح مولانا گل نصیب خان صاحب نے اپنی پوری زندگی اس جماعت میں گزاری ہے، عظیم اجتماعات کی ریت انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈالی ہیں، حافظ صاحب نے جمعیت علماء کی ترجمانی میں حق ادا کیا ہے، یہ ہمارے بڑے ہی محترم لوگ ہیں ان کے بڑے خدمات ہیں اللہ تعالی ان کو اس کا بہتر صلہ عطا فرمائیں۔

ان حضرات سے بندہ کا کافی تعلق رہا ہے، ان کو سنا ہے سمجھا ہے ان کے ساتھ ہماری مجالس رہی ہیں سفر ہوئے ہیں، میں ان کا بڑا احترام کرتاہوں، اور احترام کا یہ سلسلہ ان شاءاللہ جاری رہے گا۔

لیکن بایں ہمہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب پاکستانی سیاست میں مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی بصیرت اور تدبر ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، اور کارکنان جمعیت ان پر دل وجان سے فدا ہیں، نظم اجتماعی ان پر قائم ہے، اجتماعیت کا ذریعہ ہے، تو ایسے میں اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ نظم میں کمی کوتاہی موجود ہے تو اس کے لیے عین تحریک کے وقت نظم اجتماعی کو متاثر کرنا قرین عقل ہے؟ میرے خیال میں بالکل بھی نہیں لہذا جب عملی طورپر مشاہد ہے کہ جمعیت علماء مولانا صاحب کی رہبری میں بڑی کامیاب سفر کررہی ہے، اور ملک میں سول بالا دستی کے لیے ممکنہ انسانی جدوجہد میں حصہ دار بن رہی ہے تو ایسے میں سرعام مخالفت اور خیانت وکذب گوئی کے الزامات کے بجائے متعلقہ فورمز پر جاندار انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے اور قائم نظم سے وضاحت طلب کرنی چاہیے۔

حضرت کی خدمت میں طالب علمانہ حیثیت سے کافی پہلے یہ عرض بھی کرچکا تھا کہ حضرت آپ اتنے واقعیت پسند ہیں کہ صاف فرماتے ہیں کہ یہ ملک امریکا کی کالونی ہے اور فوج اس میں ان کی نمائندہ ہے لہذا ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے، اور سیدھا سیدھا اصل مالکان یعنی امریکا سے بات چیت کرنی چاہیے۔ تو اس واقعیت کو آپ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ مولانا صاحب ایک زیرک سیاست دان اور وہ پارٹی کو اپنے انداز سے حسب سابق لیڈ کرنا چاہتے ہیں اور اور ان کی لیڈر شپ میں جماعت نے کوئی نقصان بھی نہیں اٹھایا ہے تو اس حوالے سے اس قدر نرمی تو برتیں، کہ متعلقہ فورمز کے علاؤہ مخالفت سامنے نہ آئے تاکہ کارکنان جمعیت یکسوئی کے ساتھ قائد جمعیت کے ہم قدم چل سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ "اب تک” اسی طرز کا انٹرا پارٹی انتخاب ہوتا رہا ہے پارٹی انتخاب کے حوالے سے کوئی نیا سلسلہ تو شروع نہیں ہوا ہے۔ خیر جو بھی ہوا ہمیں اس پر افسوس ہے، نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ ان بزرگوں کی ناراضگی ختم ہو۔

جو محترم صاحبان علم اس صورتحال کو ماچھی گوٹھ والے قصے کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جمعیت علماء میں اختلاف وتحزب پہلی بار نہیں ہوا ہے ایسا بارہا ہوا ہے، یہ کوئی نئی کہانی نہیں، تاہم جمعیت علماء کی عظیم اکثریت ہمیشہ حضرت مفتی صاحب اور حضرت مولانا صاحب کے ساتھ رہی ہے، دیگر گروپس اس طرح قصہ پارینہ بن چکے ہیں کہ بہت سے اصحاب علم ان کی تاریخ سے بھی بے خبر ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے